افسوسناک کھیل

دل کے ہر گوشے کو زخموں سے سجا رہنے دو
ظلم سہنے کی بھی اک رسم روا رہنے دو
افسوسناک کھیل
بابری مسجد شہادت کے تقریباً 25 سال بعد بھی ہندوستانی سیاستدانوں کے لئے یہ موضوع سیاسی بقا کا بہترین سہارا بنا ہوا ہے۔ مسلمانوں کے مذہبی جذبہ کو ٹھیس پہونچانے والے قائدین نے پھر ایک بار بابری مسجد شہادت کا سہارا لے کر رائے دہندوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ انسانی سروں سے فٹبال کھیلنے کے جنونی مظاہرہ کرنے والے سنگھ پریوار کے کارندوں کو ملک کے اہم عہدوں پر بٹھانے کی تیاری ہورہی ہے تو بابری مسجد شہادت کا سہارا لے کر ان قاتل سیاستدانوں کو انتخابات میں مزید ہردلعزیز بنانے کی سازش کے تحت ٹیپ چلائے جارہے ہیں۔ کانگریس زیرقیادت یو پی اے حکومت نے 10 سال سے ملک پر حکومت کی، بابری مسجد شہادت کے خاطیوں کو سزا دینے اور انصاف سے کام لینے کا کوئی مظاہرہ نہیں کیا۔ اب کوبرا پوسٹ نامی اسٹینگ آپریشن کے آشکار ہونے پر کانگریس نے لب کشائی کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس اسٹنگ آپریشن سے بی جے پی اور آر ایس ایس کا اصلی چہرہ آشکار ہوا ہے۔ یہ لوگ نریندر مودی کے سیاسی مفادات کو تقویت پہونچانے کے لئے کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ اسٹنگ آپریشن کو کانگریس اسپانسرڈ قرار دیتے ہوئے بی جے پی نے کہاکہ انتخابات کے وقت کانگریس کا یہ حربہ ووٹ بینک سیاست کا حصہ ہے۔ دونوں پارٹیاں ایک دوسرے پر الزامات عائد کررہی ہیں۔ اس آپریشن کے وقت اور موقع محل کا سوال اُٹھاکر یہ تو ظاہر کیا جارہا ہے کہ ملک کے عوام کے ووٹوں سے کھیل تو کھیلا جارہا ہے اور جن کے ساتھ کھیل کھیلا جارہا ہے وہ غالباً جانتے ہیں اسی لئے بلا جبر انھیں اس کھیل کا حصہ نہیں ہونا چاہئے۔ کانگریس یا بی جے پی دونوں اپنے مقاصد کے حصول کے لئے مسلسل دباؤ کا عمل برقرار رکھنے اقلیتوں کے ساتھ شعوری طور پر تماشہ کررہی ہیں۔ بی جے پی کے ایک سینئر لیڈر نے ایسے کھیل کے حوالے سے کہا تھا کہ انتخابات کے موقع پر ایسی کوئی حرکت نہ کریں جس سے ساری فضاء غیر ضروری طور پر خراب ہوجائے۔ عوام کے اعتماد اور بھائی چارہ میں خلل نہ پیدا کریں ورنہ اس کو دوبارہ بحال کرنا مشکل ہوجائے گا۔ بابری مسجد کی شہادت کے نام پر اب تک اس ملک کی پارٹیوں اور اہم سیاستدانوں نے اپنے سیاسی مفادات کی زبردست نگہبانی کی اور وہ اپنے مقاصد میں کامیاب بھی ہوتے آرہے ہیں۔ لیکن اس مرتبہ ملک کے رائے دہندوں کو شعوری طور پر اپنی کھلی آنکھ سے انتخابی میدان کے کھلاڑیوں کو دیکھنا ضروری ہے۔ خاص کر بی جے پی وزارت عظمیٰ کے امیدوار نریندر مودی کے بارے میں سوچنا ضروری ہے کہ اگر اس لیڈر کو وزارت عظمیٰ کی کرسی دی گئی تو ملک کے استحکام کا کیا حال ہوگا۔ ہندوستان کا اگلا وزیراعظم منتخب ہونے کے لئے مودی اس ملک کی نصف آبادی کے پسندیدہ لیڈر ہوسکتے ہیں لیکن کیا یہ نصف آبادی یہ بھی سمجھتی ہے کہ کوئی فرقہ پرست لیڈر ہندوستان کے اعلیٰ عہدہ کے لئے موزوں ہوسکتا ہے۔ گجرات میں مسلمانوں کے خلاف قتل عام کے لئے ہندوؤں کو اُکسانے والے لیڈر نے ہی 1990 ء میں ایودھیا میں بابری مسجد کے مقدس مقام پر ایک مارچ منظم کرنے میں مدد کی تھی اس کے دو سال بعد بابری مسجد شہید کردی گئی اور ہندو ۔ مسلم فسادات میں 2000 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔ راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ کی تاحیات رکنیت رکھنے والے ایک ہندو قوم پرست لیڈر نے مسلمانوں کے خلاف ہندوؤں کو اشتعال دلانے والی تقریروں کے ذریعہ اپنے سیاسی کرئیر کا آغاز کیا تھا۔ 2002 ء میں جس ریاست میں مسلم کش فسادات ہوئے تھے وہاں کا چیف منسٹر تھا، آیا یہ شخص وزیراعظم کے عہدہ پر قابض ہوجائے تو بعد کی صورتحال کیا ہوسکتی ہے۔ اس پر توجہ دینا ہندوستانی باشعور رائے دہندوں کا فریضہ ہے۔ مسلمانوں کو خوفزدہ کرتے ہوئے اپنے ووٹ بینک کو مضبوط بنانے والی طاقتوں کو اقتدار تک پہونچنے سے روکنے کے لئے وطن پرستی کا دیانتدارانہ ثبوت دینا ضروری ہے۔ اگر رائے دہندوں نے ان پارٹیوں کے جھانسے میں آنے کی غلطی کی تو سیکولر ملک کی تاریخ انھیں ہرگز معاف نہیں کرے گی۔

پرویز مشرف اور عدالتی چارہ جوئی
پاکستان میں ان دنوں عدالتی سیاسی زمینی حقائق یکسر تبدیل دیکھے جارہے ہیں۔ سابق صدر جنرل پرویز مشرف کو بیرون ملک جانے کی اجازت دینے سے عدالت کے انکار کے بعد ایک سابق سربراہ کی حیثیت اور قدر و منزلت کا مقام بھی واضح ہونا بہت بڑی تبدیلی ہی کہی جاسکتی ہے۔ اس ملک میں فوجی سربراہوں کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ اس مرتبہ پرویز مشرف کے ساتھ ہونے والے واقعات تقریباً افراد کو حیران کررہے ہیں۔ 1958 ء کے پاکستان سے لے کر 2012 ء تک کے پاکستان میں کافی تبدیلی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ یہاں جنرل ایوب خاں، جنرل یحیٰی خاں کا دور نہیں رہا۔ پاکستان کی فوج کے بارے میں یہ بات بھی عام ہے کہ وہ اپنے کسی بھی افسر کو ہاتھ لگانے نہیں دیتی مگر پرویز مشرف کے معاملہ میں فوجی سربراہ راحیل کی سفارش کو بھی خاطر میں نہیں لایا گیا تو مشرف کی جرائم اور مقدمات کی سنگینی ظاہر ہوتی ہے۔ ان پر غداری کا الزام ہی سب سے بڑا سنگین الزام ہے۔ پیپلز پارٹی حکومت میں ملک سے جلاوطنی کرنے والے مشرف کو یہ ہرگز گمان نہ تھا کہ جلاوطنی سے واپسی کی صورت میں ان پر عدالتی شکنجہ کسا جائے گا۔ پاکستان میں سیاسی مخاصمت کی بدترین مثالیں پائی جاتی ہیں۔ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو ہوں یا کوئی اور سربراہ کا انجام سیاسی انتقام کی نذر ہی ہوا تھا۔ کہا جارہا ہے کہ جنرل پرویز مشرف کو بھی ان کے گناہوں کی سزا مل رہی ہے۔ ماضی میں نواز شریف حکومت کے خلاف بغاوت اور جبراً ملک بدر کردینے کے واقعہ کو دنیا نے فراموش نہیں کیا ہے۔ کسی بھی سربراہ یا مقتدر اعلیٰ کو اپنے تکبر کی انتہا کا جواب دینا ہوتا ہے۔ پرویز مشرف بھی ان دنوں جوابدہ ہوگئے ہیں۔ لیکن جس ملک میں کسی کے خلاف کوئی فیصلہ بھی دوسروں کی مرضی خاصکر سیاسی مرضی سے ہوتا ہو تو وہاں کی عدلیہ کی کارکردگی پر بھی آنچ آتی ہے۔ آج پرویز مشرف کو جن حالات کا سامنا ہے وہ نواز شریف حکومت کی وجہ سے ہے۔ اگر پاکستان میں اس وقت نواز شریف کی حکومت نہ ہوتی تو مشرف کو بھی کوئی پریشانی نہیں ہوتی لیکن مشرف کو ان کی بعض غلطیوں کی سزا مل رہی ہے۔ اپنے ملک کا آئین توڑنے، لال مسجد میں سینکڑوں طلباء و طالبات کا قتل عام کرانے، اپنے شہریوں کو امریکہ کے ہاتھوں ڈالروں کے عوض حوالے کرنے جیسے واقعات انھیں انصاف کے کٹہرے تک لے جانے کا موجب بنے ہیں۔