اعمال کی مقبولیت، اخلاصِ نیت پر ہے

پروفیسرسید عطاء اللہ حسینی قادری الملتانی

عبادت اور اطاعت میں ایک فرق یہ ہے کہ اطاعت میں جذبۂ محبت و عقیدت شامل نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے اللہ کی پسندیدگی حاصل ہوتی ہے اور عبادت سے اس کی محبت حاصل ہو جاتی ہے۔ یوں سمجھو کہ اطاعت نوکری ہے اور اطاعت کرنے والا نوکر ہے، جب کہ عبادت غلامی ہے اور عبادت کرنے والا غلام ہوتا ہے۔ نوکری وقتی ہوتی ہے، جو حکم ملا اس کی تعمیل کردی، بس کام ختم ہو گیا، جب کہ غلامی ہمہ وقتی ہوتی ہے، بندہ ہر حال میں غلام ہے۔ طوقِ غلامی ہمیشہ گلے میں رہے گا، یہ نہیں کہ آدمی فلاں وقت بندہ ہے اور فلاں وقت نہیں ہے۔ عبادت و اطاعت میں قرار و استقلال ذکر سے آتا ہے، اس لئے ذکر کا سلسلہ جاری رہنا چاہئے، ناغہ نہ ہو۔ ذکر کرتے رہوگے تو ان شاء اللہ تعالیٰ عبادت بھی ہوتی رہے گی اور اطاعت بھی۔ جب بندے نے ایک مرتبہ قلب کی تصدیق کے ساتھ لاالہ الااللّٰہ کہہ دیا تو اس کا مطلب ہی یہ ہے کہ اس نے اللہ کا طوقِ غلامی اپنے گلے میں ڈال لیا ہے۔ اب وہ آزاد نہ رہا کہ جو چاہے کرتا پھرے، اب اسے صرف وہ کام کرنا ہے، جو آقا کی مرضی اور حکم کے مطابق ہو۔ بڑی بھاری ذمہ داری اس نے قبول کرلی، جب اس کو اس ذمہ داری کا احساس ہوتا ہے تو وہ محسوس کرتا ہے کہ اب اس کا کچھ بھی نہ رہا، سب کچھ اس کے آقا کا ہے۔ اس کا وقت، اس کی جان، اس کا مال، اس کی نماز، اس کی قربانی، اس کا جینا، اس کا مرنا، یعنی سب کچھ آقا کے لئے ہے۔

مشکلات کا یہ احساس ابتداء میں ہوتا ہے، لیکن جب وہ اس راستے پر چل پڑتا ہے تو آقا کی دستگیری آتی ہے، آقا خود اس کا ہاتھ تھام لیتا ہے۔ پھر کوئی مشکل، مشکل نہیں رہتی، سب کچھ آسان ہو جاتا ہے۔ ایک بچہ جب چلنا چاہتا ہے اور اس کے لئے پہلی بار کھڑا ہوتا ہے تو اس کی ٹانگیں کانپتی ہیں، ایک قدم بڑھانا اس کے لئے مشکل ہوتا ہے۔ گرجانے کا خوف اس کے دماغ پر مسلط رہتا ہے، چہرے پر ہوائیاں اُڑتی ہیں، لیکن جب ماں باپ میں سے کوئی اس کا ہاتھ تھام لیتا ہے تو بچے کا خوف یک لخت ختم ہو جاتا ہے، اس کے چہرے پر اعتماد کا نور آجاتا ہے اور وہ بے خوف و خطر قدم بڑھانے لگتا ہے۔ اسے اب کوئی مشکل نظر نہیں آتی، گرپڑنے کا خوف باقی نہیں رہتا۔ لَاخَوْفٌ عَلَیْہِمْ کی چادر اس کے سرپر تن جاتی ہے، جو قدم بھی اُٹھاتا ہے، پورے اعتماد کے ساتھ اٹھاتا ہے، اب اس کے پاؤں لرزتے نہیں۔ اسی طرح جب آقا بندے کا ہاتھ تھام لیتا ہے تو وہ آقا کے سہارے چلتا ہے۔ خوف و حزن کی ہر کیفیت دُور ہو جاتی ہے۔ غار ثور میں یہی بات حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سمجھائی تھی کہ ’’کچھ خوف و حزن نہ کرو، اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے‘‘۔ اب اگر کوئی مسلمان چلنے کا ارادہ کرلے تو کھڑا ہو جائے، قدم اُٹھالے، پھر وہ (اللہ تعالیٰ) خود ہی سنبھال لے گا، فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں۔ حضرت پیرانِ پیر سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’تم اُٹھو تو سہی، چلو تو سہی‘‘۔
حقوق اللہ میں چوتھا حق ’’اخلاصِ نیت‘‘ ہے۔ بارگاہِ خداوندی میں انسان کے کسی بھی عمل کی شرط قبول یہی ’’اخلاص نیت‘‘ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے پاس کوئی عمل صرف اسی صورت میں مقبول ہوتا ہے، جب وہ خالصتاً اللہ تعالیٰ کے لئے کیا جائے، اسی کو دین کہا جاتا ہے۔ سورۃ الزمر میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’خوب سمجھ لو کہ دین خالص اللہ کا حق ہے‘‘۔ ایک شخص نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: ’’یارسول اللہ! ہم اپنا مال اللہ کی راہ میں دیتے ہیں اور اس سے ہماری نیت یہ ہوتی ہے کہ ہمارا نام ہو، کیا اس پر ہمیں کوئی اجر ملے گا؟‘‘۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’نہیں‘‘۔ اس نے پوچھا: ’’اگر ہم اللہ کے اجر اور دنیا میں ناموری دونوں کی نیت کرلیں تو؟‘‘۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کوئی بھی عمل قبول نہیں کرتا، جب تک کہ وہ خالص اسی کے لئے نہ کیا گیا ہو‘‘۔ اس کے بعد آپﷺ نے سورۃ الزمر کی مذکورہ آیت پڑھی۔

حضرت بوعلی دقاق رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’صرف حق تعالیٰ کی بالارادہ عبادت کرنے کا نام اخلاص ہے۔ مقصد صرف اللہ تعالیٰ کا قرب ہو، کوئی اور مقصد نہ ہو۔ مثلاً تصنع، ریا اور تعریف کی خواہش وغیرہ نہ ہو۔ ایک حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ’’اخلاص میرے رازوں میں سے ایک راز ہے، جسے میں اپنے بندوں کے دل میں رکھ دیتا ہوں، جن سے میں محبت کرتا ہوں‘‘۔
حضرت ابویعقوب سوسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’جب لوگ اپنے اخلاص میں اخلاص کا مشاہدہ کرتے ہیں تو سمجھو کہ ان کے اخلاص کو ابھی اخلاص کی ضرورت ہے‘‘ یعنی ابھی اس میں ریا ہے۔ حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’تین چیزیں اخلاص کی نشانیاں ہیں، ایک یہ کہ عوام کی تعریف یا مذمت بندے کے نزدیک یکساں ہو جائے۔ دوسرے یہ کہ اپنے اعمال میں اعمال کو دیکھنا بھول جائے۔ تیسرے یہ کہ بندہ یہ بھی بھول جائے کہ وہ آخرت میں اعمال کا ثواب چاہتا ہے‘‘۔ حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’لوگوں کے خیال سے عمل ترک کردینا ریا ہے اور لوگوں کی خاطر عمل کرنا شرک ہے۔ اور اخلاص یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تمھیں ان دونوں باتوں سے محفوظ رکھے‘‘۔ حضرت رویم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’اخلاص یہ ہے کہ بندہ اپنے عمل کے عوض دنیا اور آخرت کی کوئی چیز نہ چاہے، یعنی دنیا وآخرت دونوں سے بے نیاز ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ ہی اس کا مقصود و مطلوب ہو‘‘۔ حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’اخلاص بندے اور رب کے درمیان ایک راز ہے، جسے نہ فرشتہ جانتا ہے کہ اسے لکھ سکے، نہ شیطان جانتا ہے کہ اسے بگاڑ سکے اور نہ نفس جانتا ہے کہ اسے اپنی طرف مائل کرسکے‘‘۔ کسی نے حضرت سہل تستری رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا کہ ’’نفس پر کونسی چیز گراں ہے؟‘‘۔ فرمایا ’’اخلاص، کیونکہ اس میں نفس کا کوئی حصہ نہیں ہوتا‘‘۔
دین و عبادت کی روح اخلاص ہے، مگر یہ اخلاص بڑی مشکل سے حاصل ہوتا ہے۔ شیطان کے اکثر حملے نیتوں پر ہوتے ہیں، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ نیت سے اخلاص ختم ہو جائے تو عمل غیر مقبول ہوکر ضائع ہو جاتا ہے، اس لئے وہ لوگوں کی نیتوں کو فاسد کرتا رہتا ہے، تاکہ فساد نیت سے ان کی عبادت اور ان کے اعمال ضائع ہوجائیں، اسی لئے شیطان سے اللہ کی پناہ مانگنے کا حکم ہے۔ اللہ تعالیٰ کی پناہ ہی ایک ایسا مضبوط قلعہ ہے، جس میں پناہ لے لیں تو شیطان کے حملوں سے بچنا ممکن ہے۔ لہذا جب آپ یہ دیکھیں کہ شیطان آپ کی نیت کو فاسد کر رہا ہے تو فوراً اعوذ باللّٰہ من الشیطن الرجیم پڑھ کر اللہ کی پناہ میں آجائیں۔ (اقتباس)