شریعت کے پانچ شعبے ہیں: (۱) عقائد (۲) عبادات (۳) معاملات (۴) اخلاق (۵) معاشرت۔ ان تمام شعبوں میں عقائد تو مکمل طورپر ہمیشہ اٹل رہے ہیں، توحید ذاتی، توحید صفاتی، توحید افعالی، عقیدہ رسالت، عقیدہ آخرت، ملائکہ وغیرہ سب غیر مبدل رہے ہیں، ان میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، البتہ باقی شعبوں میں حسب ضرورت تبدیلیاں ہوتی رہیں۔ مثلاً نماز ہی کو لیجئے، ہو سکتا ہے اس کا طریق مختلف رہا ہو، اوقات بھی مختلف رہے ہوں۔ اسی طرح روزہ شکل میں سحر و افطار کے اوقات میں، تاریخوں میں اختلاف رہا ہو۔ معاملات کے طور طریقوں، احکام وسائل میں اختلاف رہا ہو۔ پھر اسی طرح اخلاق و معاشرت میں بھی تبدیلیاں ہوتی رہی ہوں، لیکن ان تمام شعبوں کے بنیادی تصورات میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ جو تبدیلیاں بھی ہوئی، وہ حالات اور ضروریات کے مطابق ہوئیں۔ غرض شریعتوں میں تو تبدیلی ہوئی، لیکن دین کبھی نہیں بدلا، جس کا نام اسلام ہے۔ جب شعور انسانی ترقی کرکے زندگی کی تمام حقیقتوں کے ادراک کے قابل ہو گیا تو نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرماکر آخری شریعت بھی دے دی گئی۔
اب اس شریعت میں بھی دین کی طرح کوئی بنیادی تبدیلی ممکن نہیں، لیکن چوں کہ تمدن اور زمانہ ارتقاء پزیر ہے اور حالات بھی بدلتے رہتے ہیں، اس لئے شریعت محمدی میں اتنی لشک ہے کہ ہر زمانے کے حالات کے مطابق مسائل کو حل کرسکتی ہے، کیونکہ جو مسائل بھی درپیش ہو، ان کو قیاس کے ذریعہ حل کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح اب دین و شریعت دونوں غیر مبدل ہیں کہ نہ دین میں کوئی تبدیلی ممکن ہے اور نہ شریعت کے بنیادی تصورات میں۔ اس طرح اسلام کو جامد ہونے سے محفوظ کردیا گیا ہے۔ یہ ایک حکیمانہ فیصلہ ہے، جو اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمادیا ہے، لہذا اب اسلام ایسا جامد بھی نہیں کہ حالات و ضروریات زمانہ کا ساتھ نہ دے سکے اور نہ ایسا مومی مجسمہ ہے کہ اس کو خواہشات نفسانی کے مطابق جس طرح چاہا ڈھال لیا جائے۔
غرض مندرجہ بالا طریقہ کار سے اسلام میں اعتدال کی راہ مکمل طور سے ہموار ہو گئی ہے۔ یوں اسلام کے سارے اوامر و نواہی، احکام و مسائل معتدل اور متوازن ہو گئے ہیں اور افراط و تفریط سے پاک ہوکر اسلام ایک ایسا نظام زندگی بن گیا ہے، جو کسی بھی زمانے کے ہر چیلنج کا مقابلہ کرسکتا ہے اور دنیا کے ہر علاقے اور ہر قوم کے لئے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے قابل عمل ہے۔
اب ایک بات اور سمجھ لیجئے، تاکہ موضوع کا حق پورا پورا ادا ہو جائے۔ شریعت نام ہے ان احکام و قوانین کے مجموعے کا، مسلمان کو جن کا مکلف کیا گیا ہے۔ اس میں ظاہری اعمال یعنی جو اعضاء و جوارح سے تعلق رکھتے ہیں اور باطنی اعمال جو قلب، نیت اور ارادے سے تعلق رکھتے ہیں، سب شامل ہیں۔ متقدمین کے نزدیک ان دونوں طرح کے اعمال کے متعلق علم کو ’’فقہ‘‘ کہا جاتا تھا۔ چنانچہ امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک فقہ کی تعریف ہی یہ تھی کہ ’’نفس کے نفع اور نقصان سے متعلق امور کو پہچاننا‘‘، لیکن بعد میں متاخرین کے نزدیک اعمال ظاہری سے متعلقہ امور کا نام فقہ ہو گیا اور اعمال باطنی سے متعلق امور کا نام ’’تصوف‘‘ ہو گیا۔ چنانچہ باطنی اعمال کے طریقوں کو اب ’’طریقت‘‘ کہا جاتا ہے اور ان طریقوں سے جو حقائق کونیہ اور حقائق الہیہ منکشف ہوتے ہیں تو ان مکشوفات کو ’’حقیقت‘‘ کہتے ہیں اور اس انکشاف سے اللہ تعالی کی جو پہچان ہوتی ہے، اس کو ’’معرفت‘‘ کہا جاتا ہے اور جس شخص پر یہ حقائق منکشف ہوتے ہیں، اس کو ’’محقق‘‘ اور ’’عارف‘‘ کہتے ہیں۔
واضح رہے کہ یہ تمام امور شریعت ہی سے متعلق ہیں، شریعت سے الگ بالکل نہیں، یعنی طریقت، حقیقت اور معرفت سب شریعت ہی میں شامل ہیں، شریعت سے جدا نہیں ہیں۔ عوام میں یہ بات جو مشہور ہو گئی ہے کہ شریعت کا تعلق صرف اعمال ظاہری سے ہے اور اعمال باطنی کا تعلق شریعت سے نہیں، یہ ایک غلط خیال ہے۔ یہ خیال بالکل غلط اور بیمار ذہن کی پیداوار ہے، اس غلط فکر کا نتیجہ یہ ہے کہ کچھ لوگوں نے قرآن و حدیث کو چھوڑ دیا اور قرآن و سنت کی شاہراہ سے دور جا پڑے اور جہالت کے سمندر میں ڈوب گئے۔ اسی طرح کچھ لوگوں نے تصوف یعنی فقہ باطن کو چھوڑدیا، جس کی وجہ سے تزکیہ سے بیگانہ ہوگئے، جو قرآن و سنت کی روح رواں ہے اور اصلاح باطن کا قابل اعتماد ذریعہ۔ یاد رہے کہ تصوف کی ہر بات، ہر حکم، ہر مسئلہ قرآن و سنت ہی سے مستفاد ہے اور جو قرآن و سنت سے مستفاد نہ ہو، وہ تصوف نہیں۔
اسی لئے صوفیہ کرام کا قول ہے کہ وہ حقائق و معارف جو ہمارے قلب پر منکشف ہوتے ہیں، ان کو ہم قرآن و سنت کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں۔ اگر قرآن و سنت کے مخالف نہ ہوں تو ہم ان کو قبول کرتے ہیں، ورنہ نہیں۔ چنانچہ ابوسلمان دارانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’اکثر میرے دل میں کوئی نکتہ اسرار صوفیہ میں سے آتا ہے تو میں دو عادل گواہوں قرآن و سنت کی گواہی کے بغیر اس کو قبول نہیں کرتا‘‘۔ اسی طرح حضرت ابوخراز رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’جو باطنی معاملہ ظاہر (قرآن و سنت) کے خلاف ہو وہ باطل ہے‘‘۔
خلاصہ یہ کہ دین اللہ تعالی کی بھیجی ہوئی ہدایت کا نام ہے، اسی کو اسلام کہتے ہیں۔ یہی دین اللہ تعالی کے پاس مقبول ہے۔ شریعت مختلف رسولوں کو حالات و ضروریات کے مطابق دیئے گئے، جو اوامر و نواہی، احکام و قوانین کا مجموعہ ہے، جس میں جزوی تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں، لیکن بنیادی تبدیلی اس میں بھی کبھی نہیں ہوئی۔
طریقت اعمال باطنی کے طریقوں کا نام ہے اور ان اعمال کے نتیجے میں جو حقائق قلب پر منکشف ہوتے ہیں، ان مکشوفات کو حقیقت کہا جاتا ہے اور اس انکشاف کے ذریعہ باری تعالی کی جو پہچان ہوتی ہے، اس کو معرفت کہتے ہیں۔ فقہ باطن کو تصوف کہتے ہیں اور تصوف مکمل طورپر قرآن و حدیث سے ماخوذ و مستفاد ہے اور جو قرآن و حدیث سے ماخوذ و مستفاد نہیں، وہ تصوف نہیں خرافات ہے۔ (اقتباس)