مولانا غلام رسول سعیدی
اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں اشیاء کے لئے جو خواص اور تاثیرات معین فرمائی ہیں اور حصول اشیاء کے لئے جن اسباب کو مقرر فرمایا ہے، ان کے مطابق خواص اور مسببات کا ترتب ہو تو اسے امور ماتحت الاسباب الظاہرہ اور افعال عادیہ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اگر اس کے خلاف واقع ہو، مثلاً اشیاء سے ان کے معروف اثر کے خلاف کوئی اثر ظاہر ہو یا شئی اپنے عام سبب کے بغیر کسی اور امر سے حاصل ہو جائے تو اسے امور مافوق الاسباب الظاہرہ یا خرق عادت سے تعبیر کرتے ہیں۔ بعض طبیعی حضرات خرق عادت کا انکار کرتے ہیں اور خرق عادت کے صدور کو فطرت کے خلاف قرار دیتے ہیں آیت کریمہ: ترجمہ: ’’اللہ تعالیٰ نے جس فطرت پر انسان کو پیدا کیا ہے، اس میں تبدیلی نہیں ہوگی‘‘ سے اس دعویٰ پر استدلال کشید کرتے ہیں۔ اس کے جواب میں معروض ہے کہ اس آیت کا مفہوم صرف اس قدر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو دین حق قبول کرنے کی صلاحیت کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ انسان اپنے اختیار سے یہود و مجوس کا لباس پہن لے پھر بھی اس کے باطن میں صلاحیت اسلام کا جوہر باقی رہتا ہے اور یہ صلاحیت نہ کبھی مٹتی ہے نہ تبدیل ہوتی ہے۔ پس ظاہر ہو گیا کہ آیت کریمہ خرق عادت کے ظہور کے منافی نہیں ہے اور قرآن کریم میں خرق عادت کے منافی کوئی امر کیسے ہوسکتا ہے، جب کہ خود قرآن کریم میں متعدد امور خارقہ کا ذکر ہے۔ مثلاً لاٹھی کا سانپ بن جانا، پتھر سے اونٹنی کا نکل آنا، مُردوں کا زندہ ہونا، مادر زاد اندھوں اور کوڑھیوں کا محض ہاتھ پھیرنے سے ٹھیک ہوجانا وغیرہ۔ اس کے علاوہ عقل کے پرستاروں سے گزارش ہے کہ انسان کی پیدائش کا عام عادی طریقہ مرد و زن کا اختلاط ہے اور جس انسان کو اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے پیدا کیا، وہ یقیناً اس عام عادی طریقہ کے خلاف پیدا ہوا۔ اسی طرح جانوروں میں ہر نوع کے جانور کا پہلا جانور خرق عادت سے پیدا ہوا اور درختوں میں ہر نوع کا پہلا درخت بغیر بیج کے پیدا ہوا اور یہ سب خرق عادت ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اشیاء کے حصول کے لئے مخصوص اسباب کو مقرر فرمایا، لیکن اسباب علت تامہ نہیں ہے۔ کبھی ان اسباب کے بغیر بھی اللہ تعالیٰ مسبب کو ظاہر فرمادیتا ہے، جیسے حضرت آدم، حضرت عیسیٰ اور حضرت حوا کی پیدائش اور کبھی یہ اسباب دھرے رہ جاتے ہیں اور مسبب کا ظہور نہیں ہوتا، جیسے ابراہیم علیہ السلام کا آگ میں نہ جلنا اور حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا زہر کھانے کے باوجود صحیح و سلامت رہنا۔
متکلمین نے افعال خارقہ کی چھ قسمیں بیان فرمائی ہیں: ارہاص، معجزہ، کرامت، معونت، استدراج اور اہانت۔ دعویٰ نبوت سے پہلے نبی سے جو خرق عادت فعل ظاہر ہو (جیسے دعویٰ نبوت سے پہلے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر بادل کا سایہ فگن ہونا) اسے ارہاص کہتے ہیں اور دعویٰ نبوت کے بعد نبی سے جس خرق عادت کا ظہور ہو اسے معجزہ کہتے ہیں۔ اگر مسلمان صالح کامل سے خرق عادت کا ظہور اور دعویٰ نبوت سے مقرون نہ ہو تو اسے کرامت کہتے ہیں۔ اسی طرح اگر عام مسلمانوں میں سے کسی سے کوئی امر خارق ظاہر ہو تو اسے معونت کہتے ہیں اور کافر سے خرق عادت ظاہر ہو تو اسے استدراج کہتے ہیں اور کافر مدعی نبوت سے جو خرق عادت ظاہر ہو اور وہ امر خارق اس کے دعویٰ کا مخالف ہو تو اسے اہانت کہتے ہیں، جیسے مسیلمہ کذاب کے پاس ایک کانا شخص آیا اور کہا: ’’تم نبی ہو تو خدا سے دعا کرو کہ میری آنکھ ٹھیک ہو جائے اور مجھے دونوں آنکھوں سے نظر آنے لگے‘‘۔ مسیلمہ نے جب دعا مانگی تو اس کی دوسری آنکھ کی بینائی بھی جاتی رہی۔ پس یہاں ایک امر خارق کا ظہور تو ہوا، لیکن وہ مسیلمہ کے دعویٰ کا مخالف تھا۔ اسی طرح مرزا غلام احمد قادیانی نے محمدی بیگم سے نکاح اور اس کے متوقع خاوند کے مرجانے کی پیشین گوئی کی تھی۔ تاہم محمدی بیگم کا نکاح اس دوسرے شخص سے ہو گیا۔ مرزا جی اس نکاح کی حسرت دل میں لئے ہوئے دنیا سے رخصت ہو گئے اور اپنی زندگی میں اس نے جس شخص کے مرجانے کی پیشین گوئی کی تھی، وہ مرزا جی کے مرنے کے بعد بھی کافی عرصہ تک زندہ رہا۔ (اقتباس)