اعجاز نبوی صلی اللہ علیہ وسلم

معجزات سے وہ امور و افعال مراد ہوتے ہیں، جو انبیاء کرام علیہم السلام سے اللہ تعالی کے حکم پر صادر ہوتے ہیں۔ جو خلاف عادت و فطرت ہوتے ہیں اور اہل زمانہ اس کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ انبیاء کرام علیہم السلام کی تصدیق و تائید کے لئے ان کے ہاتھوں سے غیر معمولی امور انجام پاتے ہیں، جو فطرت کے بعض قوانین کو بدل دیتے ہیں یا ان کی صورت تبدیل کردیتے ہیں۔ مثلاً حضرت نوح علیہ السلام کا طوفان، حضرت ہود علیہ السلام کی بددعا پر قوم عاد کی تباہی، حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کی کونچیں کاٹنے پر قوم ثمود کی بربادی، قوم لوط کی نافرمانی پر نزول عذاب، حضرت ابراہیم علیہ السلام پر آتش نمرود کا سرد ہونا اور ان کی نسل میں برکت ہونا، حضرت موسی علیہ السلام کی بددعا پر فرعون مصر کی غرقابی، ان کے ہاتھ کا سفید ہونا اور ان کے عصاء کا سانپ بن جانا، حضرت عیسی علیہ السلام کا مُردوں کو زندہ کرنا، بیماروں کو ہاتھ پھیرکر صحت یاب کردینا اور اندھوں کو بینائی مرحمت فرمانا۔ یہ سب تائید الہی کے ایسے مظاہر ہیں، جو تاریخ کا ایک حصہ بن چکے ہیں اور ناقابل انکار حقیقت ہیں۔
جس طرح انبیاء کرام علیہم السلام کے مراتب و درجات میں تفاوت ہوتا ہے، اسی طرح انبیاء کرام علیہم السلام کی تائید و نصرت کے لئے اترنے والے معجزات کی تعداد اور ان کی کیفیت و کمیت میں بھی فرق ہوتا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء کرام کے سردار ہیں، اسی لئے اللہ تعالی نے آپﷺ کی تائید و نصرت کے لئے سب سے زیادہ معجزات کا نزول فرمایا، جن کی صحیح تعداد کا علم اللہ تعالی ہی کو ہے۔ آپﷺ کا سب سے بڑا معجزہ قرآن کریم ہے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک اہم علمی و عقلی معجزہ آپﷺ کا غیبی خبریں دینا بھی ہے، اس کا دار و مدار وحی الہی پر ہے۔ مفسرین و علماء کے مطابق وحی کی دو قسمیں ہیں: (۱) وحی جلی، جس کی عملی صورت قرآن مجید ہے (۲) وحی خفی، جس کی عملی صورت احادیث نبویہ ہیں۔ جب ہم احادیث شریفہ پر نظر ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ آپﷺ نے امی ہونے کے باوجود گزشتہ زمانوں کے حالات کی امت کو خبر دی۔ اسی طرح مختلف مواقع پر آپﷺ نے اپنے دور میں پیش آنے والے واقعات کی تفصیلات سے بھی لوگوں کو مطلع فرمایا اور مستقبل کے حالات کا ذکر فرمایا۔ چنانچہ متعدد صحابہ کرام سے منقول ہے کہ آپﷺ کو دور دراز کی خبریں وحی الہی کے ذریعہ معلوم ہو جایا کرتی تھیں، مثال کے طورپر غزوہ موتہ کے موقع پر آپﷺ نے صحابہ کرام کو مسجد نبوی میں جمع کیا اور فرمایا: ’’میں تمھیں معرکہ کے حالات بتاتا ہوں۔ اب جھنڈا زید بن حارثہ کے ہاتھ میں ہے اور وہ شہید ہو گئے‘‘۔ پھر فرمایا ’’اب جھنڈا جعفر نے لے لیا ہے، اب وہ بھی شہید ہو گئے۔ اب عبد اللہ بن رواحہ نے مسلمانوں کا جھنڈا پکڑلیا ہے، اب وہ بھی شہید ہو گئے‘‘۔ جب آپﷺ یہ خبریں دے رہے تھے، اس وقت آپﷺ کی آنکھیں نمناک تھیں۔ پھر فرمایا ’’اب یہ جھنڈا اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار (حضرت خالد بن ولید) کے ہاتھوں میں ہے‘‘ (البخاری، کتاب المغازی) اس میں یہ بھی صراحت ہے کہ آپﷺ نے یہ اطلاع قاصد کے مدینہ منورہ پہنچنے سے پہلے دی تھی۔ (البخاری، کتاب المغازی)

اس سلسلے میں ایک حیرت انگیز واقعہ عمیر بن وہب کا ہے۔ سیرت نگار موسی بن عقبہ نے ابن شہاب الزہری سے نقل کیا ہے کہ ’’(غزوۂ بدر کے بعد) جب مشرکین مکہ چلے گئے تو عمیر بن وہب، صفوان بن امیہ کے پاس آیا۔ پھر وہ دونوں ایک غار میں بیٹھ گئے۔ صفوان بولا کہ اللہ نے بدر کے مقتولوں کے بعد ہماری زندگیوں کو برا بنادیا ہے۔ عمیر بولا درست ہے۔ واللہ! ان کے بعد جینے میں کوئی مزہ نہیں رہا اور اگر مجھ پر ایسا قرض نہ ہوتا، جس کی ادائیگی کا میرے پاس کوئی بندوبست نہیں ہے اور میرے بال بچے نہ ہوتے، جن کے لئے میرے پاس کوئی سامان نہیں ہے، تو میں ضرور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس چل کر جاتا اور جب مجھے موقع ملتا تو میں ان کو قتل کردیتا۔ {نعوذباﷲ} یہ سن کر صفوان خوش ہو گیا اور بولا کہ تیرے قرض اور تیرے بال بچوں کی ذمہ داری مجھ پر ہے، انھیں میرے گھر والوں کے برابر خرچ ملے گا۔ اس پر دونوں وہاں سے اتفاق کرکے اٹھے اور صفوان نے عمیر کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل پر اچھی طرح ابھارا، اس کی تلوار کو صیقل کرایا اور اس کو زہر میں بجھوایا۔ عمیر نے صفوان سے کہا: ’’یہ خبر چند دنوں تک لوگوں سے چھپاکر رکھنا‘‘۔

اس کے بعد عمیر مدینہ منورہ آگیا اور مسجد کے دروازے پر اونٹ سے اُترا، اپنی سواری کو وہاں باندھ دیا اور تلوار لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے آیا۔ اس وقت اسے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے دیکھ لیا، جو اس وقت چند انصار صحابہ کرام کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ حضرت فاروق اعظم اسے دیکھ کر گھبرا گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا: ’’یارسول اللہ! اس کی کسی بات پر اعتبار نہ کریں‘‘۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’اسے میرے پاس لاؤ‘‘۔ حضرت فاروق اعظم باہر آئے اور اپنے ساتھیوں سے کہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاکر بیٹھو اور عمیر کی اچھی طرح نگرانی کرو۔ پھر حضرت عمر، عمیر کو ساتھ لے کر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپﷺ نے حضرت عمر کو پیچھے بٹھا دیا اور عمیر سے آمد کا مقصد پوچھا۔ اس نے کہا: ’’میں اپنے عزیز قیدی کی رہائی کے لئے آیا ہوں‘‘۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’پھر تونے غار میں صفوان کے ساتھ کیا شرط طے کی تھی؟‘‘۔ یہ سن کر عمیر گھبرا گیا، مگر اس نے انجان بنتے ہوئے کہا کہ ’’میں نے بھلا کیا شرط طے کی تھی؟‘‘۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’تونے اس شرط پر میرے قتل کی حامی بھری تھی کہ وہ تیری اولاد کی ذمہ داری اٹھائے گا اور وہ تیرا قرض ادا کرے گا۔ اس وقت تیرے اور اس کے درمیان اللہ تعالی حائل تھا‘‘۔ اس پر عمیر نے کہا: ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ تعالی کے رسول ہیں اور اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود نہیں ہے‘‘۔ پھر عرض کیا: ’’یارسول اللہ! ہم آپ کے پاس وحی آنے اور آسمانی خبروں کی آمد کے منکر تھے اور یہ بات میرے اور صفوان کے درمیان ایک غار میں ہوئی تھی، جسے آپﷺ نے بتادیا اور اس بات کی اطلاع آپ کو اللہ تعالی نے ہی دی ہے۔ اللہ تعالی کا شکر ہے کہ اس نے اس بات کو میرے یہاں پہنچنے کا ذریعہ بنادیا‘‘۔ اس پر تمام مسلمان بے حد خوش ہوئے۔ (الاصابہ، جلد۳، صفحہ۳۶)

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت کے عظیم معجزات میں سے ایک معجزہ یہ بھی ہے کہ آپﷺ نے مختلف مواقع پر آئندہ زمانے سے متعلق جو پیشین گوئیاں کیں، وہ اپنے اپنے وقت پر حرف بہ حرف پوری ہوئیں۔
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا: ’’اے جابر! کیا تمہارے پاس قالین ہیں‘‘۔ میں نے عرض کیا: ’’نہیں‘‘۔ اس پر آپﷺ نے فرمایا: ’’عنقریب تم قالینوں پر بیٹھوگے‘‘۔ حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ’’بالآخر وہ دن آیا کہ ہم قالینوں پر بیٹھے‘‘ (البخاری۲:۴۱۱) اسی طرح آپﷺ نے مختلف ممالک کے فتح ہونے کی خوش خبری دی، جن کا فتح ہونا اس وقت بظاہر ممکن نہ تھا، لیکن آپﷺ کی زبان مبارک سے نکلنے والی ایک ایک بات سچی ثابت ہوئی اور یہ آپﷺ کا معجزہ ہے۔