اظہار خیال اور تقریر کی آزادی پر راست و بالواسطہ حملے

ہندوستان کی تقسیم کے بعد ایک نئی نفسیاتی تقسیم پیدا کرنے کی کوشش، فرقہ پرستی کے میزائل کو روکنا ضروری، گوپال کرشن گاندھی کا عوام کے نام مکتوب
نئی دہلی۔3 اگست (سیاست ڈاٹ کام) اپوزیشن نائب صدارتی امیدوار گوپال کرشن گاندھی نے آج یہ الزام عائد کیا ہے کہ آزادیٔ خیال، تقریر، عقیدہ پر راست اور بالراست حملے کئے جارہے ہیں۔ لوگوں کے ذہنوں میں ایک نیا نفسیاتی خوف پیدا کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فرقہ پرستی کے ان تیروں کو روکنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ گوپال کرشن گاندھی نے عوام کے نام ایک مکتوب میں یہ وضاحت کی کہ انتخابات کن حالات میں منعقد ہورہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ تقسیم ہند ماضی کا حصہ بن گئی ہے لیکن آج پھر ایک بار نفسیاتی تقسیم کی کوشش ہورہی ہے اور ہمارے ذہنوں میں اس تقسیم کے بیج بوئے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فرقہ پرستی کے اس میزائلکو روکنا ضروری ہے۔ یہ مکتوب عام آدمی کے لیے تحریر کیا گیا ہے۔ انہوں نے یہ مکتوب ایسے وقت جاری کیا جبکہ نائب صدر جمہوریہ کے رول پر این ڈی اے امیدوار وینکیا نائیڈو کے ساتھ مباحث کی بات کی جارہی ہے۔ انہوں نے اس مکتوب میں کہا کہ تقریر، فکر اور ایقان کی جمہوری آزادی پر راست و بالراست حملے ہورہے ہیں۔ ادارہ جات کی کارکردگی کو اس انداز میں چلایا جارہا ہے کہ عوام میں ناراضگی بڑھے اور ہمیشہ دبائو رہے۔

اس کے علاوہ جو بھی ان کوششوں کے خلاف آواز اٹھائے ان کی آواز کو خاموش کردیا جائے۔ گوپال کرشن گاندھی نے کہا کہ جب بھی باہمی اعتماد، عدم رواداری اور اتحاد کی بات آتی ہے تو یہ ساری خوبیاں آج ختم ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ تقریباً 6 ماہ بعد گاندھی جی کے قتل اور تقسیم کے زخموں کی ہم 70 ویں یاد منائیں گے۔ وہ تقسیم ایک حقیقت تھی۔ 1946-47 کے فسادات ماضی بن چکے ہیں اور اب ہمارے ذہنوں میں ایک نئی تقسیم پیدا کی جارہی ہے اور وہ نفسیاتی تقسیم ہے۔ جیساکہ فلسفی رام چندر نے کہا ہے کہ گاندھی جی نے جو پوجا کے لیے جارہے تھے انہیں نفرت کی تین گولیاں روک نہیں پائیں۔ اس کے برعکس انہوں نے اپنے دل سے انہیں روک دیا۔ ہمیں بھی فرقہ پرستی کے اس میزائل کو روکنا ہوگا۔ گاندھی جی کے پوترے گوپال کرشن گاندھی نے کہا کہ آزادی، انصاف، مساوات کے نظریات اور ہماری آزادی کی جدوجہد کے 70 سال کے موقع پر ان سب کو پھر ایک بار چیلنجس کا سامنا ہے۔ الیکشن کمیشن کے آزادانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کے انعقاد کی ستائش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمیں اس بات کا بھی جائزہ لینا ہوگا کہ ہم آج کس قدر آزاد ہیں؟ کیا ہم خوف سے آزاد ہیں؟ کیا ہم اس بات کی بھی آزادی رکھتے ہیں کہ اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزاریں؟ ہماری سوچ اور اظہار خیال کی ہمیں کیا پوری آزادی حاصل ہے؟ گوپال کرشن گاندھی نے کہا کہ کیا آج ہم اتنے آزاد ہیں کہ بڑی صنعتوں سے کہہ سکیں کہ وہ ہماری ندیوں کو آلودہ نہ کریں۔ زہریلے مادوں کے اخراج کے ذریعہ ہماری فضاء اور ماحول کو متاثر نہ کریں؟ انہوں نے صدر جمہوریہ اور نائب صدر جمہوریہ دو دستوری عہدوں کو ’’ہماری جمہوری زندگی کے ہر شعبہ کا اعلی مقام کا حامل‘‘ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ آج ہم ایک بار پھر اس بات کا عہد کریں کہ ہندوستان کی عظیم آبادی انصاف کو برقرار رکھیں گے اور باہمی فرقہ جاتی اٹوٹ اتحاد قائم کریں گے۔ اس کے ذریعہ امن کی برقراری یقینی ہوگی۔ انہوں نے پہلے نائب صدر جمہوریہ سروے پلی رادھا کرشنن اس قول کا حوالہ دیا کہ ہمیشہ دوراندیشی اختیار کریں ، ناعاقبت اندیشی سے بچیں۔