اصولوں اور اقدار سے لا تعلقی

جراء ت ِ کردار کی یہ بھی اک روشن مثال
ایک ادنی سا دِیا ہے آندھیوں کے سامنے
اصولوں اور اقدار سے لا تعلقی
کانگریس اور بی جے پی متنازعہ حصول اراضی بل پر ایک دوسرے کے خلاف الزامات عائد کرتے ہوئے سیاسی ڈرامائی حالات پیدا کررہی ہیں۔ لوک سبھا انتخابات میں بد ترین ہنریمت کے بعد کانگریس کو اس صدمہ سے باہر نکلنے میں وقت لگے گا۔ راہول گاندھی نے پارٹی کو ایک ایسے وقت چھوڑ کر 56 روز کا بن باس کیا تھا جب پارٹی کی جانب سے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ہر ایک موثر آواز اٹھاتے ہوئے حصول اراضی بل اور کسانوں کے مسائل پر حکومت کی توجہ مبذول کرنے والے اپوزیشن قائد مقننہ کی ضرورت تھی مگر راہول گاندھی نے یہ ذمہ داری سنبھالنے سے انکار کرکے پارلیمنٹ بجٹ سیشن سے ہی غیر حاضر ہونے کا اعلان کیا تھا۔ ان کی غیر حاضری میں بی جے پی بھی بعض سیاسی خوش فہمیوں کا شکار ہوئی تھی۔ راہول کے اس طرح غائب ہونے اور واپسی کے درمیان کانگریس پارٹی کارکنوں کی توقعات و خواہشات کو شدید ٹھیس پہونچا تھاجب راہول نے کانگریس لیجسلیچر پارٹی کا لیڈر بننے سے انکار کیا تو اس سے پارٹی کے خاص قائدین سے لیکر عام کارکنوں تک مایوس ہوگئے تھے اب ان کی گھر واپسی اور کسانوں کے مسائل پر آواز اٹھانے کی کوشش سے ملک میں ایک اپوزیشن پارٹی کے موجود ہونے کا ہلکا سا احساس محسوس کیا گیا ہوگا لیکن بحیثیت بڑی اپوزیشن کانگریس اپنی حصہ کی ذمہ داری ادا کرنے سے قاصر دکھائی دیتی ہے۔ مرکز میں مودی زیر قیادت بی جے پی حکومت نے ایک طرف فرقہ پرست تنظیموں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ دوسری طرف غریب اور متوسط طبقات کی حالت کی ابتری کو دور کرنے کے صرف دعوی و وعدے کئے جاتے رہے ہیں۔ کسی بھی پارٹی میں قیادت ہی اصل طاقت ہوتی ہے۔ بی جے پی کی قیادت کا ریموٹ کنٹرول سنگھ پریوار کے ہاتھ میں ہے جبکہ کانگریس کی قیادت کو آزادانہ اختیارات کے ساتھ فرد واحد کی جماعت یا لیڈر کا موقف حاصل ہے مگر یہ قیادت جب اپنی صلاحیتوں سے عاری ہونے کا ثبوت دیتی ہے تو پھر حکمراں پارٹی کو من مانی کرنے کی کھلی چھوٹ مل جاتی ہے ۔ گذشتہ 10 ماہ سے نریندر مودی حکومت جو کچھ کررہی ہے اس کا سخت گیر نوٹ نہیں لیا گیا ۔ اپنی ناکامیوں کی وجہ سے الجھن کا شکار کانگریس شدید بحران سے دوچار رہی ہے اس کے باوجود پارٹی کے اندر کسی قسم کا کوئی خاص انتشار دکھائی نہیں دیتا ۔ کانگریس کے تمام اہم قائدین پارٹی سے ہنوز وابستہ ہیں تو اس کا مطلب واضح ہے کہ کانگریس کے مستقبل کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اب کانگریس کو مودی حکومت کی خرابیوں نے ایک موقع دیا ہے کہ وہ مضبوط قیادت پیدا کر کے عوام الناس کو مودی حکومت کی ناکامیوں سے واقف کرانے میں کامیاب ہوجائے۔ راہول گاندھی اگرچیکہ سیاسی سطح پر گذشتہ 10 سال سے سرگرم ہیں مگر ان کے اندر قیادت کے مظاہرہ کا جذبہ نہیں ہے اس لئے وہ اب تک ملک کے عوام پر اپنا قائدانہ اثر چھوڑنے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں پارٹی کے کارکنوں کو بھی راہول گاندھی سے شدید مایوسی پیدا ہورہی ہے ۔ اس تلخ حقیقت کے باوجود کانگریس کے یہ کارکن پارٹی سے وابستگی کا دیانتدارانہ مظاہرہ کررہے ہیں تو پارٹی کی قیادت کو اپنے کارکنوں کے بھروستہ کو قائم رکھنے کیلئے مودی حکومت کی ناکامیوں کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ راہول گاندھی کی واپسی سے مسرور پارٹی کارکنوں نے رام لیلا میدان میں کسان ریالی کی کامیابی کو پارٹی کے حق میں نمایاں تبدیلی متصور کی ہے تو پارٹی قیادت کو اب مودی حکومت کو چیلنج کرتے ہوئے ایک بہتر مستقبل کا متبادل خاکہ تیار کرتے ہوئے عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کرنی ہوگی ۔ اس کیلئے مکمل وقت دینے کی ضرورت ہے راہول گاندھی کے بھروسے پر پارٹی نے کوئی ٹھوس قدم اٹھا بھی لیا تو وہ بی جے پی کے لئے خطرہ بن سکیں گے غیر واضح ہے ۔ کانگریس نے شائد ان اصولوں کو فراموش کردیا ہے جو دنیا میں کامیابی کیلئے رائج ہیں ۔ جن اصولوں کو اختیار کرکے کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے ان میں سچائی‘ محنت ‘روشن خیالی ‘شفافیت ‘دیانتداری اور انصاف پسندی‘اعلی ظرفی ہے۔ وعدوں کی پاسداری کرتے ہوئے عوام کی آرزوں کا احترام کرنے جیسے اقدام شامل ہیں۔