اصلاح کی تلقین

نہیں ہے نا امید اقباؔل اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
اصلاح کی تلقین
مسلمانوں کو موجودہ مودی حکومت کے پیدا کردہ حالات سے فکر مند ہونے کی ضرورت اس لئے پیدا ہورہی ہے کہ ان کی نمائندگی کرنے والی سیاسی طاقتوں نے بھی فرقہ پرستوں کے ہاتھ مضبوط کرنے کیلئے کوئی موقع ضائع ہونے نہیں دیا۔ اپنے حقیر سیاسی فوائد کیلئے فرقہ پرستوں کی راہ آسان کرتے جارہے ہیں۔ سیکولر پارٹیوں کے ووٹوں کو تقسیم کرنے کا عمل یکسر نا پسندیدہ بنتا جارہا ہے ۔ مسلمانوں کو فکر مند دیکھ کر مذہبی صفوں سے وابستہ افراد میں اضطرابی کیفیت پائی جانا فطری امر ہے۔ شہر حیدرآباد میں ان دنوں علاقائی اور قومی سطح کے علمائے دین نے جلسوں میں اپنے اظہار خیال کے ذریعہ مسلمانان ہند کو مشورہ دیا کہ وہ موجودہ ملکی صورتحال و حالات کو اپنے لئے اصلاح کا بہترین موقع متصور کرکے تیار کریں۔ مسلمانوں کی اجتماعی زندگی میں ان دنوں 3 چیزوں کی فراونی ہے اور جتنی بے نیازی اور بے رحمی کے ساتھ یہ تین بیش قیمت اثاثے لٹائے جاتے ہیں اس کی مثال موجودہ مسلمانوں کی کیفیت سے دی جاسکتی ہے۔ مسلمانوں کی اس وقت جو معاشرتی زندگی ہے اس کی مثال شائد کسی اور معاشرہ میں دکھائی دے ۔ مسلمانوں کی زندگی کے 3 خاص چیزیں ان کا جوش و خروش‘عقیدت و احترام اور غم و غصہ سے اگر ہندوستانی مسلمان ان تینوں باتوں کا بھی صحیح استعمال سیکھ لیتے تو اس حال کو نہ پہنچتے کہ ان پر نریندر مودی کی شکل میں فرقہ پرست گروپس کی نمائدہ حکومت مسلط ہوتی ۔ جوش و خروش کے معاملے میں مسلمانوں نے اپنے سیاسی لیڈروں کے اکسانے پر اتنا شدید مظاہرہ کیا کہ ان پر جذباتی ہونے اور شدت پسند کا لیبل لگادیا گیا۔ عقیدت کے مسئلہ پر مسلمانوں نے ایک دوسرے کو ہی نیچا دکھاتا اورفروعی مسائل میں الجھ کر اپنے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کی احمقانہ حرکتیں کی اور دشمنوں کی سازشوں کا شکار ہوئے۔ جب ان پر ظلم بڑھایا گیا تو غم و غصہ کے اظہار کا طریقہ بھی اتنا بھونڈہ اختیار کیا کہ اس سے صرف ان کی نمائندگی کا دعوی کرنے والی قیادت کو فائدہ حاصل ہوا اور مسلمانوں کے حق میں نا انصافیاں ہی آئیں ایسے میں ایک عام مسلمان بنیادی طور پر ’’حال‘‘ میں زندہ رہ کر اپنے روز مرہ عوامل میں ہی مگن رہتا ہے اس کو مستقبل کی دور دراز پیچیدگیوں کا صحیح ادراک نہیں ہوتا ۔ اس صورتحال میں ایک عام مسلمان چالاک سیاستدانوں کا شکار بن کر ان کی سیاسی طاقت کو مضبوط بناتا آرہا ہے اور خود کو کمزور کررہا ہے۔ اپنے اندر اصلاح کا جذبہ پیدا نہیں کرسکا۔ یہی حال کم و بیش مسلمانوں کے خاص گوشوں کا بھی ہے بدقسمتی سے ہندوستانی مسلمانوں کی تاریخ ظاہر کرتی ہے کہ ان کے مذہبی نام نہاد ٹھیکے داروں نے بھی سیاسی گروپ کا ساتھ دے کر اپنے دینی فرائض کو کمزور بنادیا ہے۔ عیدگاہ بلالی مانصاحب ٹیک کے جلسے میں مقررین کے خیالات مسلمانان ہند کو اپنی اصلاح کا درس دیتے ہیں تو اسے وقت تقاضہ سمجھ کر غور کرنا چاہئے لیکن افسوس کا پہلو یہ ہے کہ اس طرح کے اظہار خیال کو روٹین کی کارروائی سمجھ کر اصلاح کی بات کو نظر انداز کردیا جاتا ہے ۔ شادیوں میں اسراف پر قابو پانے کی اپیل کو بھی خاطر میں نہیں لایا جاتا۔ حیدرآباد کی مسلم شادیاں اور اس پر ہونے والے اخراجات کا ملک کے دیگر علاقوں میں رہنے والے غریب مسلمان افسوسناک انداز میں نوٹ لیتے ہیں۔ برسوں کی محنت سے کمائی ہوئی دولت کو حیدرآبادی شادیوں میں صرف چند گھنٹے کے اندر خرچ کی جارہی ہے تو اس بے جا اسراف کا نتیجہ یہی نکلے گا کہ لوگ معاشی پسماندگی کا شکار تھے اور آگے بھی رہیں گے ۔ بے جا اسراف کی شادیوں کے علاوہ ان دنوں مسلم اکثریتی علاقوں میں نوجوانوں کی شب بیداری ‘ہوٹلنگ اور چبوتروں کی میٹنگس مسلم محلوں پر کلنک کے ٹیکے لگا رہی ہیں ۔ تحقیق پر پتہ چلتا ہے کہ مسلم نوجوان اپنے اعمال اور کردار سے تباہی کا اسکرپٹ لکھ رہے ہیں ۔ اس طرح مسلم معاشرہ کو لگے ہوئے روگ بہت بڑے ہوتے جارہے ہیں ۔ یہ حالات اتنے غیر حقیقت پسندانہ بھی نہیں اور فکر مند مسلمانوں کو اُداس کر جاتے ہیں اس لئے مسلم معاشرہ میں ذہنی آبیاری کے ساتھ ساتھ اندرونی اصلاح و سلامتی کا مسئلہ غیر معمولی توجہ کا متقاضی ہے۔