اشیاء خوردونوش میںملاوٹ

انسان جسم وروح سے مرکب ہے ،جسم مادہ ہے اورروح امررب ہے اس لئے جسم کے تقاضے مادی اسباب ووسائل سے تکمیل پاتے ہیں اورروح کے تقاضے اللہ سبحانہ کی معرفت حاصل کرنے اوراسی کی بندگی بجالانے اوراس کی آسمانی ہدایات کی بجاآوری سے پورے ہوتے ہیں۔جسم کی نشونماء اوراس کی تندرستی وصحت کی برقراری کیلئے اللہ سبحانہ نے زمین کوکاشت کے قابل بنایا اورآسمان سے صاف وشفاف پاکیزہ ولطیف پانی اتاراہے، زمین سے اناج،دالیں اورمختلف قسم کی سبزیاں وترکاریاں انواع واقسام کے پھل پھلارپیدافرمائے ہیں ،خالق کائنات ساری انسانیت ہی نہیں بلکہ ساری مخلوقات پربے نہایت رحیم ومہربان ہے’’زمین پرچلنے پھرنے والے تمام جانداروں کی روزی کا اللہ سبحانہ نے ذمہ لے لیا ہے‘‘(ہود:۶)مخلوق میں انسان بھی ہیں ،چرندپرندبھی ،سمندری مخلوقات بھی ۔الغرض خشکی وتری کی ساری مخلوقات کی نوعیت اوران کی جنسیت کی ضرورت کے مطابق خوراک مہیا کرنے کانظام اسی نے مہیاکررکھا ہے،رزق کا لفظ وسیع ترمفہوم میں اس شیٔ پربولا جاتاہے جوہرذی روح کی غذابنے اورجس سے اس کی روح کی بقاء اورجسم کی نشونماء ہو: والرزق حقیقتہ:ما یتغذی بہ الحی ، ویکون فیہ بقاء روحہ ، ونماء جسدہ(قرطبی: ۱۱؍۷۲) قدرت نے جن اشیاء کوانسانوں کی غذابنایا ہے اوران کے حلال وحرام کے احکام نازل فرمائے ہیں ان میں انسانوں کی صحت وتندرستی کی بقاء کا رازمضمرہے۔کبھی کمزوری وبیماری لاحق ہوجائے تو ان غذائوں سے اوران جڑی بوٹیوں سے مدافعانہ نظام کوتقویت ملتی ہے جن کواللہ سبحانہ نے بطورغذا ودوا کے پیدافرمایا ہے۔صحت وتندرستی اللہ سبحانہ کی عطاکردہ بیش بہانعمت ہے،حدیث پاک میں جن پانچ نعمتوں کے زائل ہونے سے قبل ان کی قدرکرنے کی تلقین ملتی ہے ان میں سے ایک صحت بھی ہے: اغتنم خمسا قبل خمس۔۔۔وصحتک قبل سقمک(مصنف ابن ابی شیبہ:۳۵۴۶۰)صحت وتندرستی میں لطف زندگی کا رازمضمرہے،اللہ سبحانہ کی اُن بیش بہا نعمتوں سے جن کا تعلق اشیاء خوردونوش سے ہے وہی صحیح معنی میں حظ اندوزہوسکتے ہیں جوصحت منداورتندرست ہیں،مال ودولت اوراسباب راحت وعیش کی فراوانی صحت وتندرستی کے بغیربے معنی ہوجاتی ہے۔کائنات کا حسن اوراس کی رعنائیاں بے کیف لگتی ہیں ،صحت وتندرستی کی بقاء اوراس کا استحکام خالق فطرت کی پیداکردہ صاف ستھری ،پاکیزہ ،حلال وطیب اور فطری غذائوں پرموقوف ہے۔لیکن افسوس اجناس وپھل پھلار اورفطری مشروبات جیسے دودھ ،شہدوغیرہ کی فطری پیداوارمیں انسان نماانسانیت دشمن بھیڑیوں کی بیجامداخلت کی وجہ انسانوں بلکہ حیوانوں کی صحت و زندگی دائو پرلگ گئی ہے، مادہ پرستی اورچندروزہ دنیا کی زندگی کے عیش وآرام کی بیجا چاہت جنون کی شکل اختیارکرگئی ہے، خداناشناس،آخرت فراموش کچھ انسان دشمن ناجائزوحرام راستوں سے مال ودولت کمانے اورانسانوں کی صحت وزندگی سے کھلواڑکرنے سے بھی دریغ نہیں کررہے ہیں۔معاصی وسیئات پرکاربندرہنا،دوسروں پرظلم ڈھانا، اللہ سبحانہ کے حدودکوپامال کرنا، اخلاقی ضوابط کوتوڑ کر کرئہ ارض پرفسادمچا نا بعض مفسدانسانوں کا وطیرہ بن گیا ہے جس سے کرئہ ارض کا چین وسکون چھن گیا ہے،ایسے ہی کچھ انسانیت کے بدخواہ ہیں جوناجائزراہ سے مال کمانے کی حرص ولالچ میں منشاء الہی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اشیاء خوردونوش میں زہریلی اشیاء کی ملاوٹ کا غیرانسانی کھیل کھیل رہے ہیںاور اپنے جیسے دوسرے انسانوں سے بے وفائی اور دشمنی کے مرتکب ہیں۔آئے دن اخبارات میں کھانے پینے کی اشیاء میں زہریلی اشیاء کی آمیزش کی خبریں شائع ہوتی رہتی ہیں ۔ باتھ روم آئسیڈاورناکارہ اورردی اشیاء کی آمیزش کے ساتھ ادرک لہسن کے ملاوٹی پیسٹ ،جانوروں کی ہڈیوں کوگرم کرکے اس سے برآمدہونے والی چکنائی میں مزیدزہریلے کیمیکلس کی آمیزش کے ساتھ خوردنی تیل کی بڑے پیمانہ پرتیاری ، بازارمیں دھوکہ دہی کے ساتھ ان کی نکاسی کے کئی ایک ریکٹ ہیں جن کو پولیس نے بے نقاب کیاہے۔دودھ،دہی،بالائی ،مکھن اورگھی وغیرہ جیسی اشیاء اب خالص دستیاب نہیں ہیں، گلوکوزپاوڈر،گلوکوزہائیڈروجن ،ناقص ملک پائوڈر،سوپروائس ڈیٹرجنٹ سرف پائوڈرoxytocinزہریلا کیمیکل اوربعض ذرائع ابلاغ سے ’’یوریا‘‘جیسی کھادکے ذریعہ مصنوعی دودھ بنائے جانے اورملاوٹی چائے کی پتی اورکھوپرے کے تیل،مصنوعی سرخ مرچ وکالی مرچ پائوڈراوردیگرنقلی مسالحہ جات وغیرہ اوران جیسی کئی ایک خوردنی ملاوٹی مصنوعات کے کئی ایک غیرقانونی مراکزپرٹاسک فورس کی جانب سے دھاوے کرتے ہوئے ان کوگرفتارکرنے اوران مراکزمیں پائی جانے والی زہریلی اشیاء ونقصان رساں کیمیکلس اوران مصنوعی اشیاء کی تیاری کے دیگر سازوسامان ضبط کر لئے جانے کی خبریں اکثراخبارات کی شہ سرخیوں میں رہتی ہیں۔سوشیل میڈیا کے ذریعہ بھی ان جرائم کا پردہ فاش کیا جاتا رہتاہے۔سبزیوں ،ترکاریوں اورپھل پھلارکی قدرتی نفع بخشی اوران کے ذائقہ کوبھی پیداوارمیں اضافہ کی غرض سے استعمال کئے جانے والے کیمیکلس نے ختم کردیا ہے،حدتویہ ہے جان لیوانقلی دوائوں کی تیاری کے مراکزبھی ملک کے مختلف حصوں میں قائم ہیں ،نقلی ادو یہ و زہریلی ملاوٹ شدہ اغذیہ کی تیاری کے مجرمین کسی مشہورومعروف برانڈکے نام سے ان اشیاء کی ہوبہو پیکنگ کرکے بازارمیں پھیلادیتے ہیں جس سے کسی کونقلی ہونے کا کوئی شک وشبہ نہیں رہتا ۔ ناجائزراہ سے منافع خوری اورراتوںرات مالداربن جانے کی بیجاحرص وناجائزہوس نے مردہ ضمیرانسانوں کوایسے گھنائونے جرم کا عادی بنادیا ہے۔ملاوٹ شدہ نقلی اشیاء کی تیاری میں سرمایہ کم سے کم خرچ ہوتا ہے اوربے حدوحساب منافع ہاتھ لگتاہے،ملک میںغذائی اشیاء میں ملاوٹ کے جرم کے ساتھ نقلی دوائوں کی تیاری کے ریکٹ بھی حکومت کے دھائوں کی وجہ بے نقاب ہوئے ہیں، ان کے خلاف حکومت نے سخت قوانین بھی مدون کئے ہیں اس کے باوجوددولت کے لالچی انسانیت کے دشمن خبیث طبائع اس کی پروا ہ نہیںکرتے۔حکومت وقانون کے اداروں کے بعض عہدیداربھی بدعنوان،راشی( کرپٹ )ہیں جن کی سرپرستی ایسے انسانیت دشمن ملاوٹی اشیاء کی تیاری کے مجرمین کوحاصل رہتی ہے،سخت قانون کے باوجود اس طرح کے جرائم روزبروزبڑھتے ہی جارہے ہیں۔اللہ سبحانہ نے ناپ تول میں کمی کرنے سے منع فرمایا ہے اوراس کے انجام بدسے آگہی بخشی ہے،وضاحت کے لئے سورہ ہودآیات ۸۴،۸۵اورسورہ مطففین کی ابتدائی آیات دیکھی جاسکتی ہیں۔اوربھی متعددآیات ہیں جن میں ناانصافی ،حق تلفی ،ناجائزوحرام طریقہ سے روزی کی تحصیل کی مذمت بیان کی گئی ہے اورمتبنہ کیا گیا ہے کہ یہ اعمال اللہ سبحانہ کی ناراضگی ،معاملات میں بے برکتی ،آخرت میں اللہ سبحانہ کی گرفت کاباعث ہیں۔ان آیات سے جوبات مستفادہے وہ یہی ہے کہ ناپ تول ،لین دین اورمعاملات میں الگ الگ پیمانے بنالینا جائزنہیں ہے یعنی دینے کا پیمانہ الگ ہو اورلینے کا پیمانہ الگ کیونکہ یہ فسادفی الارض کا باعث ہے۔ایک موقع پرسیدنا محمدرسول اللہ ﷺکا ایک غلہ کے ڈھیرپرسے گزرہوا،آپ ﷺنے اپنا دست مبارک اندرکے حصہ میں ڈالا تووہ گیلا نکلا،آپ ﷺنے اس کے مالک سے اس بارے میں دریافت فرمایا ،تواس نے جواب دیا یا رسول اللہ یہ بارش کے پانی میں بھیگ گیاتھا،آپ ﷺنے فرمایا تم نے اس بھیگے ہوئے حصہ کواوپرکیوں نہیں رکھا تاکہ خریداراسے دیکھ لیتے ،پھرفرمایا جس نے دھوکہ دیا وہ ہم میں سے نہیں‘‘(مسلم:۱۵۰)سیدناعمرابن الخطاب رضی اللہ عنہ رعایہ کی تحقیق حال کیلئے اکثرراتوں میں گشت فرمایا کرتے تھے ،دوران گشت ایک بوسیدہ خیمہ سے آوازآرہی تھی ماں بیٹی سے کہہ رہی تھی بیٹی! دودھ کی فروخت سے جوپیسہ ملتے ہیں وہ اتنے کم ہوتے ہیں کہ اس میں گزارا مشکل ہوتا ہے ،جب میں تیری عمرکی تھی تودودھ میں پانی ملایا کرتی تھی اوراس سے اتنے پیسہ ہاتھ لگ جاتے تھے جس سے بآسانی گزربسرہوجایا کرتاتھا،یہ سن کربیٹی کہہ رہی تھی ماں جب تم یہ کام کرتی تھی اس وقت ایمان نہیں لائی تھی اوراب ہم الحمدللہ مسلمان ہیں ،اسلامی احکام کی خلاف ورزی ہم کیسے کرسکتے ہیں۔ماں نے کہا بیٹی !ہمارے گزربسرکا مسئلہ ہے اس سے اسلام پرکیا حرف آئے گا؟بیٹی نے ماں سے کہا خلیفۃ المسلمین نے تواس سے منع کیا ہے ،ماں نے کہا کیا خلیفۃ المسلمین نہیں جانتے کہ ہم غریب اگردودھ میں پانی نہیں ملائیں گے تودووقت کی روٹی کا بندوبست کیسے ہوسکے گا ،بیٹی اپنے فیصلہ پراٹل تھی ماں نے سمجھایا خلیفۃ المسلمین کواس کی کیا خبرکیا وہ یہاں دیکھنے آرہے ہیں،بیٹی کا ایمان افروزجواب تھا کہ میں ہرگزدودھ میں پانی نہیں ملائوں گی ،خلیفۃ المسلمین نہ دیکھ رہے ہوں توکیا ہوا ہمارا پروردگاراللہ سبحانہ تو ہمیں دیکھ رہاہے۔اس واقعہ سے ظاہرہے جس سماج میں ’’اللہ سبحانہ ہمیں دیکھ رہا ہے‘‘ کا استحضار، خوف خداوخوف آخرت پیداکردے وہاں زہریلی اشیاء کی ملاوٹ کی بات تودوررہی پاکیزہ اشیاء کی ملاوٹ کابھی کوئی تصورنہیں کیا جاسکتا۔ اشیاء خوردونوش میں زہریلی اشیاء کی ملاوٹ ایک بڑا ناقابل معافی جرم ہے لیکن پاکیزہ اشیاء ملائی جائیںتویہ بھی دھوکہ ہے اس کوبھی اسلام نے جرم ہی ماناہے،ظاہرہے اس طرح کے کاروبارکرنے والے بذات خود اس بات کوپسندنہیں کرتے کہ ان کے ساتھ کوئی دھوکہ کا معاملہ کرے۔ اسلام کا نظام حیات جس کی بنیادتوحیداورالہ واحدکی حاکمیت پرقائم ہے،اس کے نفاذہی سے دنیا میں امن وآمان قائم ہوسکتا ہے اورجرائم کی بیخ کنی بھی اسی سے ممکن ہے،چونکہ اس نظام حیات پرکاربندانسانوں کا ایمان وایقان انکے قلوب میں یہ بات راسخ کردیتا ہے کہ اللہ سبحانہ’’ علیم وخبیر‘‘ہے ،ساری مخلوقات اورکائنات کی ہرچھوٹی بڑی چیزسے باخبرہے،وہ دیکھ بھی رہا ہے اورسن بھی رہاہے اوردلوں میں کیا مخفی ہے وہ بھی اس سے پوشیدہ نہیں،نگاہوں کی خیانت اوردلوں میں چھپی ہرچیزاس پرعیاں ہے۔یعلم خائنۃ الاعین وما تخفی الصدور(غافر:۱۹)