اس کی کوشش ہے سلطانِ دہلی بن جائے۔ پورے ملک کو گجرات سمجھ بیٹھا ہے

سنگاریڈی۔/23فبروری، ( سیاست ڈسٹرکٹ نیوز) نبیرہ حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز ؒ واعظ وقت حضرت خواجہ سید شاہ مولوی عبدالجبار محمد محمدالحسینی، بسمت نگر کے خلیفہ خاص شیخ العرفان حضرت الحاج حبیب احمد بن عمر المعروف حبیب عرفان علی شاہ بندہ نوازی چشتی ؒ کے 11ویں عرس عرفانی کی دو روزہ تقاریب کا مولوی حکیم عمر بن احمد حبیب فیض علی شاہ عرفانی بندہ نوازی چشتی سجادہ نشین بارگاہ عرفانی چاوش باغ سنگاریڈی کی راست نگرانی و سرپرستی میں آغاز عمل میں آیا۔ 19فبروری کو بعد نماز عصر جلوس صندل جامع مسجد سنگاریڈی سے برآمد ہوا اور بعد نماز مغرب بارگاہ عرفانی پہنچا۔ سجادہ نشین نے صندل مالی اور فاتحہ خوانی کی ۔ حسب سابق احاطہ بارگاہ عرفانی میں شب دس بجے سے کل ہند مشاعرہ بضمن عرس عرفانی جناب حکیم عمر بن احمد حبیب فیض علی شاہ عرفانی بندہ نوازی چشتی سجادہ نشین بارگاہ عرفانی کی صدارت میں کامیاب انعقاد عمل میں آیا۔ کُل ہند مشاعرہ کے دو ادوار منعقد کئے گئے۔ پہلا دور نعتیہ اور دوسرا دور سنجیدہ و ادبی مشاعرہ کا رہا۔ مشاعرہ کا آغاز حافظ و قاری محمد قاسم علی فاضل جامعہ نظامیہ و امام و خطیب مسجد بارگاہ عرفانی کی قرأت کلام پاک سے ہوا۔ ناظم مشاعرہ جناب فیروز رشید نے حمد پاک پیش کی اورمشاعرہ کا باضابطہ آغاز ہوا۔ مقامی شعراء کے بعد مشاعرہ کو دو مہمان بین الاقوامی شہرت یافتہ شعراء منظر بھوپالی اور جوہر کانپوری نے اپنے کلام سے مشاعرہ کو بلندیوں پر پہنچادیا۔ منظر بھوپالی نے اپنے کلام سے قبل مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ علحدہ ریاست تلنگانہ کی تشکیل سے متعلق
بل کی لوک سبھا میں منظوری کے بعد علاقہ تلنگانہ کا یہ پہلا مشاعرہ ہے۔ اس طرح سے ریاست تلنگانہ کی تاریخ میں مشاعرے کو یاد رکھا جائے گا۔ انہوں نے تلنگانہ کی تشکیل پر مبارکباد دیتے ہوئے مسلمانوں کو اپنے حقوق کے حصول کیلئے جدوجہد کرنے کا مشورہ دیا اور کہا کہ تعلیم کے بغیر ترقی کا تصور محال ہے چنانچہ مسلمان اپنی تعلیمی ترقی پر خصوصی توجہ مرکوز کریں۔ منظر بھوپالی کے ان اشعار کو زبردست داد و تحسین حاصل ہوئی:
سرکار ؐ کی سجدہ میں گذر جاتی تھیں راتیں
اُمت کو مگر سجدہ کی فرصت نہیں ملتی
کرشکرِ خُدا اُمت احمدؐ میں جگہ دی
ورنہ تجھے منظر یہ سعادت نہیں ملتی
لوگ بیٹوں سے ہی رکھتے ہیں توقع لیکن
بیٹیاں اپنے بُرے وقت میں کام آتی ہیں
ایک بیٹی ہو تو کِھل اُٹھتا ہے گھر آنگن
گھر وہی ہوتا ہے پر رونقیں بڑھ جاتی ہیں
فاطمہ زہرہؓ کی تعظیم کو اُٹھتے رسول ؐ
محترم بیٹیاں اسی واسطے کہلاتی ہیں
اپنے بابا کے کلیجے سے لپٹ کر منظر
زندگی جینے کا احساس دلاجاتی ہیں بیٹیاں
جوہر کانپوری نے اپنے منفرد انداز میں کلام سناتے ہوئے مشاعرہ کو بامِ عروج پر پہنچادیا۔ ان کے ان اشعار کو مشاعرے کے دونوں ادوار میں پسند کیاگیا:
جنھوں نے زندگی اپنی گذاری عشق احمدؐ میں
انہیں زیرِ زمین پاکر بھی افسردہ نہیں ہوتے
قیامت تک ولی زندہ رہینگے اپنی قبر میں
خُدا کے چاہنے والے کبھی مُردہ نہیں ہوتے
منور ہو یہ دِل یہ زندگی دوبار ہوجائے
اگر اے شاہ عرفانی تیرا دیدار ہوجائے
تیرے دیدار سے چمکے میری سوئی ہوئی قسمت
اشارہ تو کردے تو غرق بیڑہ پار ہوجائے
بہت اچھا کیا دہشت پسندوں کو سزا دیکر
عدالت تیرے حق میں سب کے ہونٹوں پہ دعاء ہوگی
مگر ہر ایک ہندوتانی تجھ سے پوچھتا ہے یہ
جو ہے گجرات کا قاتل اسے کس دن سزاء ہوگی
اپنے حق میں سب ہی حالات سمجھ بیٹھا ہے
جلتے نالۂ دِل کو نغمے سمجھنے لگا ہے
اس کی کوشش ہے سلطانِ دہلی بن جائے
پورے ملک کو گجرات سمجھ بیٹھا ہے
جو دیکھتے تھے کل تلک حقارت سے
ہمارے سامنے آج وہ سر جھکانے لگے
زمانہ دیکھ یہ مجبوریاں سیاست کی
گلا اُتارنے والے گلے لگانے لگے
تقریباً رات تین بجے انتہائی کامیاب کُل ہند مشاعرہ بضمن عرس عرفانی جناب عبدالرزاق قریشی کنوینر مشاعرہ اور جناب فیروز رشید ناظم مشاعرہ کے شکریہ پر اختتام پذیر ہوا۔