نئی دہلی۔3اگست ( سیاست ڈاٹ کام ) پریس کونسل آف انڈیا چیرمین مرکنڈے کاٹجو نے آج سپریم کورٹ جج کے اس بیان پر اعتراض کیا کہ اسکولوں میں گیتا اور مہابھارت پڑھائی جانی چاہیئے ۔ انہوں نے کہاکہ یہ عمل ہندوستان کے سیکولر کردار اور دستور کے مغائر ہے ‘اس سے شدید ضرب پہنچے گی-
سپریم کورٹ کے جج اے آر دیوے نے کل کہا تھا کہ ہندوستانیوں کو اپنے موروثی روایات اور نصابوں جیسے مہابھارت اور بھگوت گیتا کا دوبارہ عوامی زندگی میں احیاء کرنا چاہیئے ۔ اسکولوں میں طلبہ کو اولین عمر میں ہی بھگوت گیتا اور مہا بھارت پڑھائی جانی چاہیئے ۔ جسٹس دیوے نے کل احمد آباد میں کہا تھا کہ بعض افراد نہایت ہی سیکولر ہوتے ہیں اور بعض نام نہاد سیکولر لوگ اس بات سے اتفاق نہیں کرتے ‘ لیکن اگر میں ہندوستان کا آمریت پسند لیڈر ہوتا یا ڈکٹیٹر ہوتا تو پہلی جماعت سے ہی گیتا اور مہابھارت کو متعارف کرواتا ۔
زندگی کیسے گذاری جاتی ہے یہ دیکھنے کا یہی طریقہ اور مقام ہے ‘ معاف کیجئے تاکہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ میں سیکولر ہوں یا میں سیکولر نہیں ہوں لیکن اگر کچھ اچھا کرنا ہے تو ہم کو کہیں سے بھی اس اچھائی کو حاصل کرنی ہوگی۔ سپریم کورٹ کے سابق جج مرکنڈے کاٹجو نے ان کے بیان پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ میںجسٹس دیوے کے بیان کے خلاف ہوں کہ گیتا اور مہابھارت کو اسکولوں میں لازمی طور پر پڑھایا جائے ۔ایک ایسے ملک میں جہاں ہماری طرح کثرت میں وحدت پائی جاتی ہے ‘اس نوعیت کی حرکتیں عوام پر مسلط نہیں کی جاسکتی یا انہیں اس کا پابند بنایا جاسکتا ہے کیونکہ یہ ہمارے ملک کے سیکولر کردار اور دستور کے مغائر ہے ۔ انہوں نے کہا کہ مسلمان اور عیسائی نہیں چاہیں گے کہ ان کے بچے ان کتابوں کو پڑھیں اور سوال یہ پیدا ہوگا کہ آیا ان کے بچوں کو یہ کتابیں پڑھنے کیلئے زبردستی کیا جائے گا ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ گیتا میں اخلاقیات کا درس ہے اور اس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن مسلمان یہ کہہ سکتے ہیں کہ قرآن بھی صرف اخلاقیات کا درس دیتا ہے ‘ عیسائی بھی یہ کہیں گے کہ بائبل بھی اخلاقیات کا درس دیتا ہے ‘ سکھ بھی یہ کہہ سکتے ہیں کہ گروگرانتھ صاحب میں اخلاقیات کی تعلیم دی گئی ہے ۔ اگر ہر ایک کی بات سنی جائے تو کیسا ماحول ہوگا ان کی رائے میں اس طرح کے پیچیدہ اور الجھن بھرے خیالات سے ملک کے اتحاد پر ضرب پہنچتی ہے ۔