حیدرآباد 29 ڈسمبر (پی ٹی آئی، سیاست نیوز ) آندھرا پردیش ہائی کورٹ کے ایک جج نے آج کہا کہ ہائی اسکولس میں جنسی تعلیم کو متعارف کئے جانے کے بعد نوعمری میں بچوں کے ذہن بگڑ رہے ہیں ۔ جسٹس ایل نرسمہا ریڈی نے کہا کہ ’’ہائی اسکولس میں جنسی تعلیم (بالغوں کے تعلیمی پروگرام ) کے نفاذ سے صرف نو عمر بچوں کے ذہن ہی بگڑے ہیں ۔ والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو راہ راست پر لائیں ۔ جسٹس ریڈی جو ہائی کورٹ لیگل سرویسس کمیٹی کے چیر مین بھی ہیں مزید کہا کہ دیرینہ روایتی مشترکہ خاندانی نظام کے سقوط کے بعد بچوں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا ہوگیا ہے ۔
جسٹس ریڈی آج یہاں ’’قانون (انسداد )جنسی جرائم 2012 کے ذریعہ بچوں کا تحفظ ‘‘ کے زیر عنوان اجلاس خطاب کررہے تھے ۔ چیف جسٹس آندھرا پردیش ہائی کورٹ کلیان جیوتی سینو گپتا نے تاثر کا اظہار کیا کہ اگرچہ قانون جنسی جرائم 2012کے ذریعہ بچوں کو بچانے کیلئے ایک سال قبل قانون منظور کیا جاچکا ہے لیکن اس پر عمل آوری کیلئے ہنوز بہت کچھ کرنا باقی ہے ۔ جسٹس سینو گپتا نے کہا کہ ’’ گذشتہ 20 سال کے دوران بچوں کے خلاف جنسی جرائم کے واقعات میں زبردست اضافہ دیکھا گیا ہے ‘‘۔ انہوں نے اس لعنت پر قابو پانے کیلئے میڈیا اور پولیس کے رول پر زور دیا ۔ جسٹس سینو گپتا نے اس قسم کے تمام واقعات کی توثیق کے بعد ہی خبررسانی کیلئے میڈیا پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ’’ بچوں کے خلاف جنسی جرائم اور استحصال کے واقعات اسکولوں ، دیہی علاقوں ،دواخانوں اور دیگر عوامی مقامات میں پیش آنے کی اطلاعات موصول ہوتی رہے ہیں جنہیں فی الفور ضروری کارراوئی کے ذریعہ روکا جاسکتا ہے ‘‘۔
ریاستی ڈائرکٹر جنرل پولیس بی پرساد راو نے کہا کہ قدیم طرز کے مشترکہ خاندانی نظام کے خاتمہ کے بعد اب صرف ماں باپ اور بچوں پر مشتمل چھوٹے خاندان کے وجود میں آنے کے سبب ایک ایسی صورتحال پیدا ہوئی ہے جس میں ماں باپ اپنے بچوں کو مطلوبہ خاطر خواہ وقت اور حقیقی پدرانہ شفقت دینے سے قاصر محسوس کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’ اب اُن ( والدین ) کی ذمہ داری گھریلو ملازمہ اور آیا کو سونپ دی گئی ہے ‘‘۔ مسٹر پرساد راو نے مزید کہا کہ ٹی وی ،سنیما ،انٹر نیٹ اور موبائیل فونس انتہائی منفی ثابت ہورہے ہیں اور بچوں کے اعداد و اطوار کو برح طرح بگاڑ رہے ہیں ۔ ڈی جی پی نے کہا کہ ’’ پولیس کو چاہئے کہ وہ جنسی جرائم کے شکار بچوں کے ساتھ خیر سگالی اور رحم دلی سے پیش آئیں اور انہیں گالی گلوچ یا سخت زبان کے دریعہ مشتعل نہ کیا جائے کیونکہ جنسی جرائم کے شکار بچے خوف ،صدمہ اور سکتے کی حالت میں ہوتے ہیں ۔