اسپورٹس اور حکومت

ساری دنیا سرائے فانی ہے
بات یہ تو بہت پرانی ہے
اسپورٹس اور حکومت
اسپورٹس کی دنیا میں کھلاڑیوں کے بہتر مظاہرہ اور اس کے جواب میں حکومتوں کے وقتی اظہار مسرت کے ساتھ انعام و اکرام سے نوازنے والے اقدامات ایک فطری امر ہے لیکن بعد کے دنوں میں کھلاڑیوں اور اسپورٹس کے ساتھ حکومت اور متعلقہ محکموں کا جو رویہ ہوتا ہے اس کی وجہ سے آج عالمی سطح پر ہندوستان کھیل کے میدان میں بہت پیچھے ہے ۔ ریو اولمپکس میں سلور میڈل حاصل کرنے والی سلور کوئن پی وی سندھو کا تلنگانہ حکومت نے فقید المثال استقبال کیا ۔ اس کے بعد پڑوسی ریاست آندھراپردیش نے بھی اس کھلاڑی پر انعامات کی بارش کردی ۔ کھلاڑیوں کے حوصلوں کو بڑھاوا دینا ضروری ہے ، سندھو نے تلنگانہ کی نمائندگی کرتے ہوئے عالمی سطح سلور میڈل حاصل کیا اب اس کھلاڑی کی کامیابی میں اپنی حصہ داری کیلئے دو تلگو ریاستوں کے درمیان دوڑ شروع ہوئی ہے تو اس سے مستقبل میں ایک نیا مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے ۔ اس کھلاڑی کے بارے میں دو تلگو ریاستوں کا دعویٰ جو بھی ہو اسپورٹس کے تعلق سے ان ریاستوں کو وقتی دکھاوے کے اقدامات سے زیادہ مستقل اسپورٹس مین شپ کا مظاہرہ برقرار رکھنا ضروری ہے ۔ پی وی سندھو اور دیگر اسپورٹس پرسنس اس طرح کے خیرمقدم کے مستحق ہیں ۔ ان کی کامیابی کے بعد نوجوان نسل میں ایک حوصلہ و جذبہ پیدا ہوتا ہے اور ہر کھلاڑی آنے والی نسلوں کے لئے ایک توانائی کا کام کرتے ہیں مگر ریاستی و قومی سطح پر اتھلیٹس و کھلاڑیوں کو بہتر سے بہتر ترقی دینے کیلئے اسپورٹس کے شعبہ میں ناقص انتظامات کے باعث ترقی اور زیادہ سے زیادہ کھلاڑیاں میدان کے لئے تیار کرنے میں ناکامی ہورہی ہے ۔ سندھو نے کیا کیا ہے اس پر ہر ایک کو فخر ہے مگر اسپورٹس کے دیگر شعبوں کو نظرانداز کرتے ہوئے دیگر کھلاڑیوں کو مایوس و ناکام بنانے میں بھی یہی حکومتیں اور ان کا نظم و نسق ذمہ دار ہوتا ہے ۔ سندھو نے اپنی صلاحیتوں اور کوششوں سے میڈل حاصل کیا اور حکومتیں اس کا سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کررہی ہیں، اس سے اسپورٹس کا کوئی بھلا نہیں ہوگا ۔ سندھو کے استقبال کے تناظر میں اسپورٹس کے دیگر شعبوں سے وابستہ کھلاڑیوں نے حکومت پر نکتہ چینی کی ہے کہ اس نے دیگر کھیلوں کی حوصلہ افزائی نہیں کی ۔ سافٹ بال اور فلور ہاکی کیلئے اسپیشل اولمپکس سے قبل قومی کوچنگ کیمپ کے انعقاد کے لئے حکومت نے گچی باؤلی اسٹیڈیم پر پریکٹس کی اجازت نہیں دی ۔ حکام نے ان کھلاڑیوں کے ساتھ بے رخی سے پیش آیا تھا ۔ سندھو کے استقبال کے لئے سرکاری خرچ کا مظاہرہ کرنے میں دونوں تلگو ریاستوں نے کوئی کنجوسی نہیں کی لیکن جب حقیقی طورپر اسپورٹس پرسنس کی مدد کرنی ہوتی ہے ان کا جذبہ نفرت آمیز رویہ میں تبدیل ہوجاتا ہے ۔ کھیل کے میدانوں میں خاص کر اتھلیٹس کے لئے بہتر سے بہترسہولتیں نہ ہونے سے ہندوستان اور ریاستوں کی اسپورٹس اتھاریٹز پیچھے ہیں۔ نوجوانوں میں اسپورٹس کے جذبہ کو فروغ دینے کے لئے باقاعدہ ٹریننگ کیمپس اور ہر شعبہ پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ ہمارے یہاں اتھلیٹس کو نظرانداز کیا جاتا رہا ہے ۔ سیکلنگ کے لئے اسپورٹس کے میدان نہیں ہے اس سے سیکلنگ کی ریس اور مقابلوں میں حصہ لینے والے نوجوانوں کو مایوسی ہوتی ہے ۔نوجوانوں میں اسپورٹس اور فٹنس کو فروغ دینے کے لئے حکومت اور متعلقہ محکمے صرف وقتی مظاہرہ کرکے چپ ہوجاتے ہیں ۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ آج حکومتوں نے ایک کھلاڑی کی کامیابی پر انعام و اکرام کی بارش کررہے ہیں اگر یہ جذبہ اسپورٹس کو فروغ دینے کے لئے بھی استعمال کیا جائے تو عالمی سطح پر اس سے زیادہ بہتر سے بہتر مظاہرہ اور نوجوانوں میں فٹنس کو فروغ دینے میں مدد ملے گی ۔ آج حکومت تلنگانہ نے کھلاڑی کی شان میں شاندار استقبالیہ رکھا تو دوسرے دن آندھراپردیش حکومت نے اس سے زیادہ شاندار تقریب کا انعقاد کرکے اپنے جذبہ کا اظہار کیا جبکہ دونوں ریاستوں میں اسپوٹرس میدانوں اور اسپورٹس کے تعلق سے جذبہ کا فقدان پایا جاتا ہے ۔ اچھے کھلاڑیاں تیار کرنے کیلئے بہتر سے بہتر کوچ فراہم کرنے ہوتے ہیں ، کھلاڑیوں کی تربیت میں کوچ کا بھی دعمل دخل ہوتاہے ۔ سندھو کے کوچ کے بارے میں ڈپٹی چیف منسٹر محمود علی نے صرف تجویز رکھی تھی مگر ان کی تجویز پر تنازعہ پیدا کردیا گیا ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کھلاڑیوں کے لئے اچھے کوچ ہوں تو زیادہ سے زیادہ اچھے نتائج کی اُمید کی جاسکتی ہے ۔ ڈپٹی چیف منسٹر کے ریمارک کو متنازعہ زاویہ سے دیکھنے کے بجائے اسپورٹس کے بارے میں مثبت رائے قائم کرکے اچھے کوچس اور اچھے میدانوں کو فروغ دیا جائے تو عالمی سطح پر اسپورٹس کے میدانوں کے لئے بہتر سے بہتر کھلاڑیاں تیارکئے جاسکتے ہیں۔