پروفیسر جہاں آراء لطیفی
کربلا میں امام حسینؓ اور ان کے جاں نثاروں کی قربانی اسلامی تاریخ کا وہ عظیم واقعہ ہے جسے تاریخ انسانی ہمیشہ اپنے صفحات میں جگہ دے گی ، یہ محض ایک حادثہ یا اتفاقی سانحہ نہیں ، بلکہ اﷲ تبارک و تعالیٰ کی حکمت کے مطابق مسلمانوں کے لئے باعث خیر و بھلائی ہے ۔ چناں چہ شہادت کا یہ عظیم واقعہ جو جذبۂ ذوق شہادت کی معراج ہے ، ہمیں یہ احساس دلاتا ہے کہ نئے سال کے لئے کیا عزم و ارادے ہوں اور کس طرح اپنے مقصد کو حاصل کیا جائے ۔ حضرت امام حسینؓ نے اپنے اُس خطبے میں جو آپ نے میدان کربلا میں ارشاد فرمایا ، دوست دشمن سب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا : ’’اے لوگو ، اگر تم تقویٰ پر ہو اور حق دار کا حق پہچانتے ہو تو یہ خدا کی خوشنودی کا موجب ہوگا ‘‘۔ جب آپ کوفہ کی جانب سفر کررہے تھے راستے میں کئی مقامات پر اپنے پڑاؤ کے موقع پر آپ کے ارشادات گرامی اس بات کے گواہ ہیں کہ آپؓ نے یہ عزم وارادہ اور اٹل فیصلہ کس مقصد کے تحت کیا تھا ۔ ایک مقام پر آپ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا ، ’’اے لوگو ! اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ہے جو کوئی ایسے حاکم کو دیکھے جو ظلم کرتا ہے ، خدا کی قائم کی ہوئی حدوں کو توڑتا ہے ، عہد الٰہی شکست کرتا ہے ، سنت نبوی ﷺ کی مخالفت کرتا ہے ۔ خدا کے بندوں پر گناہ اور سرکشی سے حکومت کرتا ہے اور یہ دیکھنے پر بھی کوئی نہ تو اپنے فعل سے اس کی مخالفت کرے اور نہ اپنے قول سے ، سو خدا ایسے آدمی کو ٹھکانہ نہیں بخشے گا ۔ دیکھو یہ لوگ شیطان کے پیروکار بن گئے ہیں اور رحمان سے سرکش ہوگئے ہیں۔ اگر نواسۂ رسول ﷺکی منشاء محض امارت کا حصول ، جاہ و منصب کی طلب ، تخت اور خلافت پر متمکن ہونا ہی ہوتا تو یقینا ان حالات میں یہ عین ممکن ہوتا کہ وہ یہ سب حاصل کرلیتے ، سیاسی سودے بازی کا ماحول بن چکا تھا اور دنیا داری کے لئے مٹی نرم ہوچکی تھی ، لیکن جگر گوشۂ علیؓ و فاطمہؓ اور قرۃ عین الرسول ﷺ نے اﷲ کی رضا کو پیش نظر رکھا اور پھر باقی تمام مناظر دھندلا گئے اور وہ اپنے رب کے آگے سرخرو ہوگئے ۔ تاریخ اس بات کی بھی شاہد ہے کہ آپؓ کو ، آپ کے چاہنے والوں نے ہر طریقے پر روکنے کی کوشش کی ۔ سیدنا امام عالی مقامؓ کے قدم کو دنیا کی کوئی طاقت نہ ڈگمگاسکی ، یہاں تک کہ آپؓ کے نومولود فرزند نے بھی آپ کے ہاتھوں میں دشمن کے تیر سے جام شہادت نوش کیا ۔ یہ وہ عزم تھا جس نے امام حسینؓ کو نہ صرف ثابت قدم رکھا بلکہ رہتی دنیا تک کے لئے لافانی مثال بنادیا ۔ آج پھر سے اُمّتِ مسلمہ اس مقام پر آپہنچی ہے جہاں ہمیں جرأت و استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسوۂ حسینی کو اپناکر دین کی سربلندی کے لئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا ۔ ہرفرد کو اسی طرح باطل کے مقابلے میں ڈٹ جانا ہوگا ، شہادت کو شعوری طورپر حاصل کرنے کیلئے ضروری ہے کہ دنیا کی ہر تمنّا کو ٹھکرا دیا جائے۔ آج جب پوری دنیا اسلام کے خلاف صف آراء ہوچکی ہے ۔ باطل قوتیں جتھ بندی کررہی ہیں ۔ ایک طاغوتی قوت پوری دنیا کا حاکم اور فرعون بننے کے ارادے سے میدان میں اتری ہے اور دنیا پر اپنی طاقت کا لوہا منوانے کی تمنا میں فرزندان اسلام کو روندنے کے درپے ہے ، ان حالات میں ضرورت ہے کہ ہم اپنے اندر شہدائے کربلا کا سا عزم پیدا کریں اور اسوۂ شبیریؓ پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ہمت اور جرأت کا مظاہرہ کریں ۔
شہداء کے متعلق قرآن کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ’’جو لوگ اﷲ کی راہ میں مارے جائیں ، انہیں مُردہ نہ کہو ، بلکہ وہ زندہ ہیں ، لیکن تمہیں ان کی زندگی کا شعور نہیں ہے ‘‘۔ ( سورۂ بقرہ)
ایک اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’اگر تم اﷲ کی راہ میں مارے جاؤ تو اﷲ کی رحمت اور بخشش تمہارے حصے میں آئے گی ۔ وہ ان ساری چیزوں سے بہتر ہے ، جنہیں یہ لوگ جمع کرتے ہیں ۔ خواہ تم مرو یا قتل کئے جاؤ ، بہرحال تمہیں سمٹ کر اﷲ کے پاس جانا ہے ‘‘۔
ایک اور جگہ تقریر کرتے ہوئے فرمایا ’’معاملے کی جو صورت ہوگئی تم دیکھ رہے ہو ۔ دنیا نے اپنا رنگ بدل دیا ، منہ پھیرلیا ، نیکی سے خالی ہوگئے ، ذرا سی تلچھٹ باقی ہے ۔ حقیر سی زندگی رہ گئی ہے ، ہول ناکی نے احاطہ کرلیا ہے افسوس ! یہ دیکھتے نہیں کہ حق پس پشت ڈال دیا گیا ہے ۔ باطل پر اعلانیہ عمل کیا جارہا ہے ، کوئی نہیں جو اس کا ہاتھ پکڑے ۔ وقت آگیا ہے کہ مومن حق کی راہ میں رضائے الٰہی کی خواہش کرے ، لیکن میں شہادت ہی کی موت چاہتا ہوں ۔ ظالموں کے ساتھ رہنا بجائے خود ظلم ہے ‘‘۔ یہ وہ الفاظ تھے جو ببانگ دھل اس نڈر و بیباک ہستی نے ادا کئے جو صرف اور صرف اﷲ کا خوف رکھتا تھا ۔