اسوۂ ابراہیمی ؑ اور مسلمان

تمنا درد دل کی ہو تو کرخدمت فقیروں کی
نہیں ملتا یہ گوہر بادشاہوں کے خزینوں میں
اسوۂ ابراہیمی ؑ اور مسلمان
اسلامی ہجری سال جذبہ ایثار و قربانی کے مہینہ محرم سے شروع ہوتا ہے اور اسلامی سال کا اختتام بھی جذبہ ایثار و قربانی کے عظیم آفاقی درس کے ساتھ یعنی ذی الحجہ کے ماہ سے ہوتا ہے ۔ گویا اسلامی زندگی سے بھر پور سال عالم انسانیت کو یہی پیغام دیتا ہے کہ بنی نوع انسان کو جذبہ ایثار و قربانی سے سرشار ہو کر اس فانی دنیا میں غریبوں ، تنگدستوں ، محتاجوں ، مسکینوں ، یتیموں اور بیواؤں کی دستگیری کرنے کے لیے ہر قدم تیار رہنا چاہئے ، جب انسان کے اندر خاص کر مسلمان جب جذبہ ایثار و قربانی سے سرشار ہوتا ہے تو اس کی دین و دنیا دونوں کامیاب سمجھے جاتے ہیں ۔ خلق خدا کی خدمت کا پیغام آج کی دنیا کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے ۔ ہندوستانی مسلمانوں کے لیے یہ پیغام خاص کر توجہ طلب ہے مگر افسوس مسلمانوں کی اکثریت اسوۂ ابراہیمی ؑ پر عمل کرنے میں کوتاہی کی عادی ہوتی جارہی ہے ۔ کیوں کہ اسوہ حضرت سیدنا ابراہیم اور اسوہ سیدنا اسماعیل میں مسلمانوں کے لیے کامل اطاعت الہٰی و فرمانبرداری کا درس ملتا ہے ۔ مگر ہندوستانی مسلمانوں نے اطاعت و فرمانبرداری جیسے الفاظ کو اپنی زندگی سے نکال دیا ہے ۔ والدین کے ساتھ برا برتاؤ بڑوں کا عدم احترام ، لغویات اور دیگر توہمات و رسومات میں الجھ کر خود کو فی زمانہ رسوا کرتے جارہے ہیں ۔ مسلمانوں کے اندر جب دینی جذبہ کھوکھلا ہونے لگے تو دوسری طاقتیں ان پر غالب آنے لگتی ہیں اور یہ ثبوت ہندوستانی مسلمانوں کی موجودہ حالت سے ملتا ہے ۔ مسلمانوں پر ان طاقتوں کو مسلط کردیا گیا ہے جو انہیں ہجومی تشدد کی نذر کررہی ہیں ۔ ان کی شناخت و شہریت کو دھیرے دھیرے مٹانے کی کوشش کررہی ہیں ۔ ہر سال مسلمانوں کی بڑی تعداد ذی الحجہ کے مہینہ میں قربانی کے جذبہ کا عظیم الشان مظاہرہ کرتے ہیں ۔ جانوروں کی خریدی اور ان کو ذبحہ کرنے کے لیے نام و نمود سے کام لیا جاتا ہے لیکن اس طرح کی قربانی قرب ربانی کا ذریعہ نہیں بن سکتی اور نہ ہی اس سے مسلم معاشرہ کی ابتر صورتحال کو دور کرنے میں مدد ملتی ہے ۔ہندوستانی مسلمانوں کو ہر سال جذبہ قربانی کے اس مہینہ کے ذریعہ یہ درس ملتا ہے کہ وہ قربانی کے ذریعہ قرب ربانی حاصل کریں اور یہ قربانی و جانور کا خون بہانے کے علاوہ دیگر عنوانات سے بھی دیکھی جانی چاہئے کیوں کہ اگر مسلمانوں نے اپنے سکھ چین شان و شوکت دکھاوے کا جذبہ کو قربان کر کے دیگر مسلمانوں اور دکھی انسانوں کی مدد کا جذبہ فروغ دینا شروع کیا تو واقعی ہندوستانی مسلمان تنگدست نہیں بلکہ دستگیر بن جائیں گے ۔ ساری دنیا کے مسلمانوں کا جو حال ہے اس سے قطع نظر ہم صرف اپنے اطراف واکناف کے ماحول پر نظر ڈالیں تو ہمیں کئی خامیاں دکھائی دیں گی ۔ ہندوستانی مسلمانوں کی ابتر معاشی ، سماجی اور تعلیمی حالات کے بارے میں اب تک کئی تنظیمیں اور سرکاری اداروں نے سروے رپورٹ شائع کئے ہیں مگر مسلمانوں کے تعلق سے سرکاری سطح پر کوئی ٹھوس قدم اٹھایا نہیں گیا اور نہ ہی خود مسلمانوں نے اپنے فلاح و بہبود کی فکر کا مظاہرہ کیا ہے ۔ ہندوستانی مسلمانوں کی پسماندگی پر کئی کمیٹیوں کی رپورٹس بھری پڑی ہیں خاص کر سچر کمیٹی رپورٹ اور اس کے بعد رنگناتھ مشرا کمیشن کی رپورٹ میں مسلمانوں کی پسماندگی کے حقائق سے پردہ اٹھایا گیا ہے ۔ اس کے باوجود مسلم معاشرہ کو بہتر بنانے کی سرکاری کوشش نہیں ہوتی اور نہ ہی مسلمانوں کے بشمول اور صاحب سمجھ افراد نے کوشش کی ہے ۔ مسلمانوں کی تعلیمی صورتحال کے حوالے سے 25 سال قبل ڈاکٹر گوپال سنگھ رپورٹ منظر عام پر آئی تھی لیکن اس کی سفارشات پر بھی آج تک عمل آوری نہیں ہوئی اور دوسری طرف مسلمان اپنی دنیا میں مگن رہے ، جن کو اللہ تعالیٰ نے صاحب استطاعت بنایا ہے انہوں نے دولت کا تماشہ شروع کیا ۔ آج شادی ، سانچق ، ولیمہ ، مانجھے ، پان کے ڈبے ، ہوٹلیں ، مندی اور اس طرح کے دیگر پیٹ بھرے طبقہ کا ثبوت دینے والے واقعات عام ہوتے جارہے ہیں ۔لیکن پسماندگی کا شکار مسلمانوں کو اس دلدل سے باہر نکالنے کا جذبہ مفقود ہوگیا ہے ۔ جب تک مسلمان صرف اپنے مزے کی زندگی میں مگن رہے گا۔ وہ دوسرے پریشان حال مسلمانوں کی مدد نہیں کرے گا کیوں کہ وہ قربانی کے جذبہ سے عاری ہوچکا ہے تو پھر قرب الہٰی سے بھی دور ہوتا جارہا ہے ۔ ایسے حالات میں ہر سال آنے والے 10 ویں ذی الحجہ بھی ان کے لیے صرف گوشت کھانے اور شکم سیر ہونے کے دن سے زیادہ کچھ نہیں ہوگا ۔ اور ان کی یہی کوتاہی مسلمانوں کو ہجومی تشدد کے قریب کررہی ہے ۔ ان کی شناخت ختم کرنے والوں کی سازشوں کو آسان ترین موقع فراہم کیے جارہے ہیں ۔ اگر مسلمانوں نے حقیقتاً اسوہ ابراہیمی پر عمل کرنا شروع کیا تو پھر ہندوستانی مسلمانوں اور سارے عالم اسلام میں ان کے اندر نمایاں تبدیلی آئے گی اور یہ تبدیلی ہی ان کے استحکام کا ثبوت ہوگی ۔۔