اسمبلی میں تلنگانہ بل پر مباحث جاری رکھنے پر زور

حیدرآباد ۔ 29 ۔ جنوری (سیاست نیوز) تلنگانہ راشٹرا سمیتی اسپیکر این منوہر سے مطالبہ کیا کہ وہ سیما آندھرا ارکان کی جانب سے تلنگانہ مسودہ بل پر مباحث کو روکنے کی کوششوں کو ناکام کریں۔ پارٹی کے رکن اسمبلی جوپلی کرشنا راؤ اور دوسروں نے اخباری نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے اسپیکر سے مطالبہ کیا کہ صدر جمہوریہ کی جانب سے دی گئی مہلت کے مطابق 30 جنوری تک اسمبلی میں بل پر مباحث کو جاری رکھا جائے۔ انہوں نے اسپیکر پر سیما آندھرا قائدین کی جانب سے مسلسل دباؤ بنائے جانے کا الزام عائد کیا تاکہ مباحث کو روکا جاسکے۔ سیما آندھرا ارکان چاہتے ہیں کہ اسمبلی میں مباحث کی عدم تکمیل کا بہانہ بناکر صدر جمہوریہ سے مزید وقت حاصل کیا جائے۔ ٹی ار ایس ارکان اسمبلی نے کہا کہ اسپیکر کو چیف منسٹر کی جانب سے پیش کردہ نوٹس قواعد کے خلاف ہے۔

لہذا اسپیکر کو چاہئے کہ وہ اسمبلی قواعد کے مطابق مباحث کی تکمیل کو ترجیح دیں اور 30 جنوری کو صدر جمہوریہ کو رپورٹ روانہ کردی جائے۔ کرشنا راؤ نے چیف منسٹر اور صدر تلگو دیشم کے درمیان میچ فکسنگ کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ دونوں قائدین مشترکہ حکمت عملی کے ذریعہ تلنگانہ بل کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اسمبلی میں چندرا بابو نائیڈو کے موقف کو بے نقاب ہونے سے بچانے کیلئے کرن کمار ریڈی نے اسپیکر کو نوٹس پیش کردی۔ چندرا بابو نائیڈو جنہوں نے آج تک مسئلہ تلنگانہ پر واضح موقف اختیار نہیں کیا، اگر وہ مباحث میں حصہ لیتے تو ان کا حقیقی چہرہ بے نقاب ہوجاتا۔ لہذا انہیں بچانے کیلئے کرن کمار ریڈی نے مباحث میں رکاوٹ پیدا کردی ہے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ اسپیکر این منوہر بھی سیما آندھرا قائدین کے اشاروں پر کام کر رہے ہیں۔

بزنس اڈوائزری کمیٹی کے اجلاس میں جن امور کو منظوری نہیں دی گئی ، انہیں اسمبلی میں پیش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ کرشنا راؤ نے کہا کہ چیف منسٹر کی جانب سے پیش کردہ نوٹس کے مسئلہ پر بی اے سی اجلاس میں اتفاق رائے نہیں ہوسکا، لہذا نوٹس کو اسمبلی میں پیش کرنے یا پھر مسودہ بل پر ووٹنگ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ دستور اور قانون کے ماہرین بھی اس بات سے متفق ہیں کہ صدر جمہوریہ کی جانب سے روانہ کردہ مسودہ بل پر ووٹنگ نہیں کی جاسکتی بلکہ ارکان کو صرف اپنی رائے کا اظہار کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ریاستی اسمبلی مسودہ بل کے خلاف اپنی رائے دے گی ، تب بھی ریاست کی تقسیم کو روکا نہیں جاسکتا۔ مرکزی حکومت کو دستور کے مطابق ریاست کی تقسیم کا مکمل اختیار حاصل ہے۔