نفرت ہے یہ ان سے یہ محبت نہیں تم سے
اظہار تنفر کو محبت تو نہ سمجھو
اسمبلی انتخابات ‘بی جے پی کی کامیابی
مہاراشٹرا اور ہریانہ کے اسمبلی انتخابات کے نتائج کا اعلان ہوگیا ہے ۔ دونوں ہی ریاستوں میں بی جے پی کو کامیابی ملی ہے ۔ ہریانہ میں پارٹی نے خاص طور پر شاندار کامیابی حاصل کی جہاں اس کے چار ارکان اسمبلی تھے اور وہ اب 90 رکنی اسمبلی میں سادہ اکثریت سے آگے بڑھ گئی ہے ۔ مہاراشٹرا میں حالانکہ اس پارٹی نے وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں الیکشن کا سامنا کیا تھا لیکن یہاں وہ اپنی سابقہ حلیف شیوسینا سے علیحدگی اور پہلے سے زیادہ نشستوں پر مقابلہ کرنے کے باوجود سادہ اکثریت حاصل نہیں کی ہے ۔ حالانکہ مہاراشٹرا میں وہ واحد بڑی جماعت کے طور پر ابھری ہے لیکن اس کو سادہ اکثریت بھی حاصل نہیں ہوئی ہے ۔ اسے ایک بار پھر مہاراشٹرا میں مخلوط حکومت بنانی پڑیگی ۔ اب تک کانگریس کے ساتھ تین معیادوں پر حکمرانی میں حصہ دار رہنے والی این سی پی نے بی جے پی کو حکومت بنانے میں باہر سے تائید کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ حکومت میں شامل نہیں ہوگی ۔ ساتھ ہی شیوسینا نے بھی بی جے پی کی تائید کے اشارے دئے ہیں اور اس سلسلہ میں بی جے پی کو پہل کرنی پڑیگی ۔ بی جے پی کے سینئر لیڈر ایل کے اڈوانی نے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ ان کی پارٹی کو مہاراشٹرا میں شیوسینا کی تائید حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔ یہ اشارے مل رہے ہیں کہ بی جے پی مہاراشٹرا میں نہ صرف شیوسینا بلکہ این سی پی کو بھی ساتھ لے کر چلنے کا فیصلہ کرسکتی ہے تاکہ حکومت زیادہ مستحکم رہ سکے اور اپوزیشن کی عددی طاقت بھی کم ہوکر رہ جائے ۔ یہ ایک سیاسی حکمت عملی پر مبنی موقف رہے گا ۔ جہاں تک این سی پی کا سوال ہے وہ ایسا لگتا ہے کہ اپنے اندازوں میں کامیاب ہو رہی ہے ۔ اس نے انتخابات سے قبل کانگریس سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے یہ اشارے دئے تھے کہ مابعد انتخابات وہ بی جے پی کے ساتھ جا سکتی ہے اور اس کے لیڈر پرفل پٹیل نے بی جے پی کی اپیل کے بغیر ہی اعلان کردیا ہے کہ وہ حکومت سازی میں بی جے پی کی باہر سے تائید کرنے کو تیار ہے ۔ یہ این سی پی کی سیاسی حکمت عملی ہے اور وہ چاہتی ہے کہ اقتدار میں شامل ہوئے بغیر اپوزیشن کی ذمہ داری ادا کرنے سے بھی بچ جائے اور حکومت میں اپنے لئے ایک نرم گوشہ ضرور حاصل کرلے ۔
انتخابات سے قبل بی جے پی نے نریندر مودی کی لہر کا ادعا کیا تھا اور پارٹی اب بھی یہی دعوی کر رہی ہے کہ مودی کی لہر نے اسے انتخابات میں کامیابی سے ہمکنار کیا ہے ۔ یہ مودی کے حاشیہ برداروں کی مہم ہے ۔ حقائق اس کے برخلاف ہیں۔ ہریانہ میں حالانکہ بی جے پی کو زبردست کامیابی حاصل ہوئی ہے لیکن یہ بی جے پی کے حق میں مثبت ووٹ نہیں بلکہ کانگریس کے خلاف منفی ووٹ کا نتیجہ ہے ۔ ہریانہ میں کانگریس دو معیادوں سے حکومت کر رہی تھی اور کرپشن اور سونیا گاندھی کے داماد رابرٹ واڈرا کی اراضی معاملتوں کے نتیجہ میںریاست کے عوام نے کانگریس کے حق میں ووٹ دینے سے گریز کیا اور اس کے نتیجہ میں متبادل کے طور پر انہوں نے بی جے پی کو ترجیح دی ۔ مقامی جماعت انڈین نیشنل لوک دل بھی داخلی حالات کی وجہ سے پریشان رہی ۔ اس کے لیڈر اوم پرکاش چوٹالہ سزا کاٹنے جیل میں ہیں ۔ انہیںانتخابی مہم کے دوران ضمانت کی شرائط کی خلاف ورزی کی پاداش میں جیل واپس جانا پڑا ہے ۔ ایسے میں ریاست کے عوام کے سامنے صرف بی جے پی ہی ایک متبادل کے طور پر موجود رہی ۔ ریاست کے عوام نے کانگریس کے کرپشن اور اس کی دس سالہ حکومت کے خلاف ووٹ دیا ہے جو بی جے پی کے حق میں چلا گیا ۔ اسے بی جے پی یا نریندر مودی کے حق میں مثبت ووٹ نہیں کہا جاسکتا ۔ یہ کانگریس کے خلاف عوامی رائے ہے اور اسے بی جے پی کے حق میں رائے قرار دینا درست نہیں ہوسکتا ۔
دوسری جانب مہاراشٹرا میں حالانکہ بی جے پی واحد بڑی جماعت بن کر ابھری ہے لیکن یہاں بی جے پی کی کارکردگی 2014 کے لوک سبھا انتخابات سے قدرے ناقص رہی ہے ۔ اعداد و شمار کے بموجب بی جے پی کو لوک سبھا انتخابات میں جملہ 145 اسمبلی حلقوں میںاپنی حریف جماعتوں پر سبقت حاصل تھی ۔ تاہم اب وہ ریاست میں 120 نشستوںکے آس پاس ہی محدود ہوکر رہ گئی ہے ۔ اس طرح اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی تائید میں کمی واقع ہوئی ہے ۔ یہ نریندرمودی کی لہر کا نتیجہ نہیں ہے ۔ مہاراشٹرا میں بھی کانگریس اور این سی پی نے تین معیادوں تک حکومت کی تھی اور یہاں بھی کرپشن کے بے شمار معاملات سامنے آئے تھے ۔ تین معیادوں تک ایک ہی اتحاد کی حکمرانی سے عوام بیزار بھی ہوچکے تھے ۔ ایسے میں انہوں نے کانگریس ۔ این سی پی کے خلاف ووٹ دیا ہے اور یہ بی جے پی کے حق میں مثبت ووٹ نہیں ہوسکتا ۔ انتخابات میں کامیابی کو نریندر مودی کے حق میں عوامی لہر قرار دینا درست نہیں ہے ۔