اسلام کی عظیم خاتون اول ام المومنین حضرت خدیجہ الکبری ؓ

حافظ سید شاہ مدثر حسینی
آپ کا نام حضر ت خد یجہ ؓ ہے نبی کریمﷺ کے اِعلانِ نبوت سے قبل وہ عفت و پاکدامنی کے باعث عہدِ جاہلیت میں طاہرہ کے لقب سے مشہور تھیں آپ کے والد کا نام خویلد ہے اور والدہ کا اِسم مبارک فاطمہ بنت زاہدہ ہے آپؓ کا سلسلہء نسب حضرت خدیجہ ؓبنت خویلد بن اسعد بن عبد العزی بن قصی۔ قصی پر پہنچ کر رسولِ کریمﷺ کے خاندان سے مل جاتا ہے آپؓ کے والد قبیلہ میں ممتاز حیثیت کے حامل اور مکہ کے امیر ترین لوگوں میں شمار ہوتے تھے۔ حضرت سیّدہ خدیجہ ؓ ایک کامیاب اور متمول تاجرہ تھیںآپؓ مکارمِ اَخلاق کی پیکرِ جمیل تھیں، رحمدلی، غریب پروری اور سخاوت آپؓ کی اِمتیازی خصوصیات تھیں۔حضرت ابنِ اسحاق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ اُمّْ المومنین حضرت خدیجہ ؓ کا شمار مکہ مکرمہ کی شریف ترین معزز اور مالدار خواتین میں ہوتا تھا۔ وہ مکہ مکرمہ کے دوسرے تاجروں کے ساتھ مل کر بطورِ مضاربت تجارت کرتیں اور اپنا تجارتی مال مکہ مکرمہ سے باہر بھیجا کرتی تھیں، جتنا سامانِ تجارت سارے اہل قافلہ کا ہوتا اُتنا اکیلے سیّدہ خدیجہ ؓکا ہوتا۔حضرت ابن اِسحاق ؓ سے مروی ہے کہ حضرت سیّدہ خدیجہ ؓ کو رسولِ کریمﷺ کی راست گوئی، اَمانت اور دیانت کا علم ہوا تو اُنہوں نے حضور ﷺ سے درخواست کہ آپﷺ میرا مالِ تجارت لے کر شام جایا کریں۔ میں اَب تک دوسرے تاجروں کو منافع میں سے جس قدر حصّہ دیتی تھی اُس سے و افر مقدار میں آپﷺ کو دوں گی اور اپنے غلام میسرہ کو ساتھ کر دوں گی، آپﷺ نے یہ تجویز منظور فرمائی اور اُن کا مال لے کر روانہ ہوئے۔حضرت سیّدہ خدیجہ ؓ کا غلام بھی اُن کے ساتھ تھا، دونوں شام آئے‘ وہاں نسطور راہب کی خانقاہ کے قریب ایک درخت کے سایہ میں فروکش ہوئے،راہب نے میسرہ سے پوچھا یہ ہستی جو درخت کے نیچے آرام فرما رہی ہیں‘ یہ کون ہیں؟ اُس نے کہا‘ یہ اہلِ حرم کے ہاشمی قریش خاندان کے ایک صالح‘ اَمانت دار‘ اور سچے اِنسان ہیں۔ راہب نے کہا‘ اِن کی آنکھوں میں سرخی ہے۔ میسرہ نے کہا‘ہاں یہ سرخی کبھی اِن سے جدا نہیں ہوتی۔ نسطور نے کہا‘ یہ پیغمبر ہیں اور سب سے آخری پیغمبرﷺ ہیں۔
(طبقات ابن سعد)

راہب نے کہا‘ اِس درخت کے نیچے سوائے نبی اللہ کے اور کوئی شخص آج تک فروکش نہیں ہوا۔ رسولِ کریمﷺ نے یہاں جومال لائے تھے بیچ دیا اور جو خریدنا تھا وہ خرید لیا۔ آپﷺ مکہ مکرمہ واپس پلٹے۔ میسرہ بھی ہمراہ تھا۔ دوپہر اور سخت گرمی کے وقت میسرہ کیا دیکھتا ہے کہ آپﷺ اُونٹ پر سوار ہوتے ہیں اور دو فرشتے آپﷺ کو تمازت ِآفتاب سے بچانے کے لیے سایہ کر لیتے ہیں، یہ سب کچھ اُس کے دِل نشین ہو گیا اور اللہ تعالیٰ نے اُس کے دِل میں نبی کریمﷺ کی اَیسی محبت ڈال دی کہ گویا وہ نبی کریمﷺ کا غلام بن گیا۔

جب قافلے نے اپناتجارتی سامان فروخت کر کے فراغت پائی تو مال میں معمول سے دو چند نفع ملا۔ رسولِ کریم ﷺ واپسی کے سفر پر روانہ ہوئے تو ظہر کے وقت مکہ مکرّمہ پہنچے،حضرت سیّدہ خدیجہ ؓ بالاخانے پر بیٹھی ملاحظہ فرما رہی تھیں کہ رسولِ کریمﷺ اُونٹ پر سوار تشریف لا رہے ہیں اور دو فرشتے اِدھر اُدھر سے سایہ کئے ہوئے ہیں۔ سیّدہ خدیجہ ؓنے اپنی عورتوں کو یہ نظارہ دِکھایا تووہ بھی اِس دِل کش منظر کو دیکھ کر خوش ہوئیں۔ میسرہ جو ہم سفر تھا اُس نے حضرت سیّدہ خدیجہ ؓکو بتایا کہ میں یہ منظر سارے راستے دیکھتا آیا ہوں۔ میسرہ نے حضرت خدیجہ ؓسے وہ باتیں بھی بیان کردیں جو نسطور راہب نے کہیں تھیں، حضرت سیّدہ خدیجہ،نے جو معاوضہ مقرر کر رکھا تھا، تجارتی قافلہ کے دوچند منافع کی وجہ سے آپ کا منافع بھی دوچندکر دیا۔ (طبقات ابن سعد‘ البد ایہ والنہایہ)

اہل سیر بیان کرتے ہیں کہ حضرت سیّدہ خدیجہ ؓنے خواب میں دیکھا تھا کہ آسمانی آفتاب اُن کے گھر میں اُتر آیا ہے اور اُس کا نور اُن کے گھر سے پھیل رہا ہے۔ یہاں تک کہ مکہ مکرمہ کاکوئی گھر اَیسا نہیں تھا جو اُس نور سے روشن نہ ہوا ہو۔ جب وہ بیدار ہوئیں تو یہ خواب اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل سے بیان کیا، اُس نے خواب کی یہ تعبیر دی کہ نبی آخر الزماں ﷺ تم سے نکاح کریں گے۔
رسولِ کریمﷺ کی شرافت، نسب، امانت، حسنِ اَخلاق اور راست بازی اور آپﷺ پر اللہ تعالیٰ کی عنایات کی وجہ سے اُمّْ المومنین حضرت سیّدہ خدیجہ ؓنے آپﷺ سے نکاح کرنے کی خواہش ظاہر کی ،جب خود حضرت سیّدہ خدیجہؓ کی اِس پیشکش کا تذکرہ نبی کریمﷺ نے اپنے چچاؤں سے کیا تو حضرت امیر حمز ہؓ ، حضرت خدیجہ ؓسے رشتے کا پیغام لے کر خویلد ابن اسعد کے پاس گئے جسے اُنہوں نے قبول کیا۔

حضرت جبرائیل علیہ السلام جب پہلی وحی لے کر آئے او ر عر ض کیا رسولِ کریمﷺ اِن آیاتِ مبارکہ کو لے کر لوٹے آپﷺ کا قلب مبارک مضطرب تھا۔ آپﷺ حضرت سیّدہ خدیجہ ؓسے احوال بیان فرمایا اور ان سے چادر اوڑا دینے کی خواہش ظاہر کی، حتیٰ کہ آپﷺ کا اِضطراب جاتا رہا،آپﷺ نے حضرت سیّدہ خدیجہ ؓسے فرشتے کا واقعہ بیان کرتے ہوئے کسی جان لیوا خوف کا اظہار فرمایا، حضرت خدیجہ ؓنے جواب میں عرض کیا: ’’نہیں نہیں آپﷺ کوکس بات کا ڈر ہوسکتا ہے، بخدا اللہ تعالیٰ آپ کو ہر ایک مشقت سے بچائے گا، بے شک آپﷺ صلہ رحمی کرتے ہیں، اہل قرابت سے عمدہ سلوک کرتے ہیں،دردمندوں کی دستگیری کرتے ہیں، تہی دستوں کی مدد فرماتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں اور مصیبت زدہ کی امداد فرماتے ہیں۔‘‘ (بخاری حدیث نمبر۳)
آپﷺکی تمام اَولاد سوائے حضرت ابراہیم ؓ کے حضرت سیّدہ خدیجہ ؓ کے بطن مبارکہ سے ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں، رسولِ کریمﷺ کے پہلے فرزند اَرجمند حضرت قاسمؓ ہیں جو اعلانِ نبوت سے پہلے مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے،رسولِ کریمﷺ اِنہی کے نام سے کنیت رکھتے تھے،یعنی ’’ابوالقاسم‘‘ اُن کے بعد حضرت سیّدہ زینبؓ پیدا ہوئیں،پھر حضرت سیّدہ بی بی رُقیہؓ پھر حضرت سیّدہ اُمّ کلثوم ؓپھر خاتونِ جنت حضرت سیّدہ فاطمۃ الزہراؓپیدا ہوئیں، اعلانِ نبوت کے بعد حضرت عبداللہ ؓپیدا ہوئے جن کا لقب طیب و طاہر تھا۔
(طبعات ابن سعد‘ تاریخ طبری‘ البدایہ والنہایہ)
حضرت سیّدہ خدیجہ ؓ وہ پہلی عظیم خاتونِ اوّل ہیں جن پر اِسلام کی حقیقت سب سے پہلے روشن ہوئی اور اُنہوں نے حضور نبی کریمﷺ کی تصدیق کی اور اپنا تمام مال رسولِ کریمﷺکی رضاکی خاطر خرچ کیا۔حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں: ’’میں نے نبی کریمﷺ کی ازواجِ پاک میں سے کسی پر اِتنی غیرت(رشک) نہ کی جتنی حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر غیرت کی، حالانکہ میں نے اُنہیں نہ دیکھا تھا لیکن حضورﷺ اُن کا بہت ذکرِ خیر فرماتے تھے۔ بہت مرتبہ بکری ذبح فرماتے پھر اُس کے اَعضا کاٹتے پھر وہ حضرت سیّدہ خدیجہ ؓکی سہیلیوں کو بھیج دیتے تھے۔ تو میں کبھی آپﷺ سے عرض کر دیتی کہ گویا حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے سوا دُنیا میں کوئی عورت ہی نہ تھی۔ تو آپﷺ فرماتے وہ اَیسی تھی وہ اَیسی تھی اور اُن سے میری اَولاد ہوئی۔‘‘ (بخاری شریف) شعب ابی طالب میں تین سال تک مسلمانوں پر جو عرصہ حیات تنگ رہا اس میں حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ثابت قدمی کے ساتھ ان تکالیف کا مقابلہ کیا۔حضرت ابو طالب ؓکی وفات کے تقریباً ایک ماہ بعد ۱۰ رمضان المبارک کو حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا وصال فرما گئیں۔ آپﷺ کے دونوں مددگار اور غمگسار رحلت فرما گئے۔ یہ وہ وقت تھا جب پیارے نبیﷺنے ان صدمات کا بے حد اثر لیا اور اِس سال کو عام الحزن یعنی غم کا سال قرار فرمایا۔ تدفین کے وقت حجون کے قبرستان میں آپ ﷺ خود لحد پاک میں تشریف لے گئے اورپھر اُس میں حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اللہ تبارک وتعالی کے سپرد فرما دیا۔