مفتی محمد قاسم صدیقی تسخیر
ایک مہینہ سے مسلسل غزہ میں اسرائیل کی بربریت اور درندگی کا سلسلہ جاری ہے۔ ساری دنیا اس بہیمیت کا خاموش نظارہ کر رہی ہے۔ مغربی دنیا اسرائیل کی پرزور حامی و مددگار ہے، جب کہ عرب دنیا خاموش تماشہ بین اور اقوام متحدہ سے اجلاس طلب کرنے کی درخواست کر رہی ہے اور ادھر غزہ تباہ و برباد ہو گیا، ہزاروں جانیں لقمہ اجل ہوگئیں۔ بچے، بوڑھے اور عورتیں بلالحاظ دشمن کی درندگی کا شکار ہوئے۔ عمارتیں زمین بوس ہو گئیں، معیشت تباہ و تاراج ہو گئی۔
دس ہزار سے زائد افراد زخمی و مجروح ہوئے، سیکڑوں موت و زیست کی کشمکش میں ہیں، ہر طرف نعشوں کے ٹکڑے بکھرے ہوئے ہیں، شفا خانے تباہ ہو گئے، خاطر خواہ علاج و معالجہ کی سہولت نہیں، دوائیں دستیاب نہیں، کھانا پانی میسر نہیں، اشیائے ضروریہ کا فقدان ہے۔ ایسے کربناک و المناک نظارے کہ جس سے جگر فلک بھی پارہ پارہ ہو جائے، پہاڑوں کی صلابت نرم ہو جائے، ہولناک مناظر سے سینہ میں شق ہو جائے اور آسمان پھٹ جائے۔ لیکن مغرب کے وہ باشندے، جو خود کو لبرل، روشن خیال، انسان دوست، اعلی تہذیب و تمدن کے حامل، انسانی خون کے پاسدار اور مسلمانوں کو تنگ نظر، بنیاد پرست، انسانیت سے عاری، ناخواندہ، غیر مہذب، دہشت گرد اور جنگجو قرار دیتے ہیں، آج ان کی نگاہوں پر پردہ پڑا ہے۔ کمسن بچوں کی تڑپتی نعشیں،
بے قصور عورتوں کے جنازے، بوڑھوں کی جاں کنی، نوجوانوں کی شہادتیں، قیامت خیز تباہی ان کے قلب و نگاہ اور دل و دماغ پر کچھ اثر نہیں چھوڑ رہی ہیں۔ ہم یہود کو اپنا دشمن اور عیسائیوں کو اپنا ہمدرد سمجھتے ہیں، مغربی ممالک کی اسرائیل نواز پالیسیوں کو ان کی مجبوری سمجھتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ عالمی منڈی یہودیوں کے ہاتھ میں ہے اور میڈیا ان کی دسترس میں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہود مغربی ممالک پر اثر و نفوذ رکھتے ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ مغربی ممالک ان کے قبضہ و قدرت میں ہیں اور اس کے اشارے کے اسیر ہیں، بلکہ اگر مغربی ممالک چاہیں تو اسرائیل اور یہودی صفحہ ہستی سے ختم ہو جائیں، ان کا نام و نشان مٹ جائے اور وہ گوشہ عدم میں چلے جائیں۔ مغربی ممالک ارادہ کریں تو ان کے دست و پا کو جکڑ دیں، لیکن وہ ایسا کبھی نہیں کریں گے، کیونکہ ان کو مشرق وسطی کو الجھائے رکھنے کے لئے اسرائیل ہی سب سے اہم وسیلہ ہے۔ برطانیہ ہی نے یہودیوں کو دنیا کے کونے کونے سے جمع کرکے اسرائیل میں بسانے میں مدد کیا ہے اور آج امریکہ، اسرائیل کی اندھا دھند پشت پناہی کر رہا ہے۔ سیکڑوں مرتبہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کے باوجود اپنی تائید و حمایت کو جاری رکھے ہوئے ہے
، اس لئے کہ ان کے مذہبی، سیاسی اور مادی مفادات اسرائیل کے وجود سے وابستہ ہیں۔ مغربی ممالک کی اسرائیل اور یہودیت سے اس قدر وابستگی کی وجوہات کیا ہیں؟۔ صرف اور صرف اسلام دشمنی ہے۔ مغربی ممالک کے حکمراں اگرچہ لبرل ہونے کے دعویدار ہیں، لیکن وہ مذہبی نقطہ نظر سے بالعموم عیسائی ہیں۔ اگرچہ عملاً مذہب سے دور ہوں، لیکن عقیدۃً اس کے پیروکار اور ہمنوا ہیں اور ان کی حکومتیں عیسائیت کو فروغ دینے اور اقطاع عالم میں اس کے مشن کو عام کرنے میں درپردہ معاونت میں شریک ہیں۔ مجھے ہمیشہ تعجب ہوتا ہے کہ یہودی عیسائیت کو بالکل تسلیم نہیں کرتے۔ حضرت عیسی علیہ السلام کو قطعاً قبول نہیں کرتے اور یہودی کتابوں میں حضرت عیسی علیہ السلام سے متعلق جو نازیبا الفاظ و نامناسب وضاحتیں ملتی ہیں، ایک مسلمان ان کو کبھی برداشت نہیں کرسکتا۔ یہودی اور عیسائی ہمیشہ ایک دوسرے سے برسر پیکار رہے۔
عیسائیوں نے یہودیوں کو تہہ تیغ کیا، اس کے باوصف یہودی اور عیسائی اتحاد کس طرح ممکن ہے؟۔ حقیقت یہ ہے کہ عیسائیوں نے اپنے درندہ بدن اور خونی دل و دماغ پر نرمی، بہی خواہی اور ہمدردی کی کھال پہن لی ہے۔ وہ بظاہر ہمدردی جتاتے ہیں، لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کے دلوں کو صرف مسلمانوں کے خون سے تسکین ہوتی ہے، کیونکہ یہودی اپنے مذہب کی اشاعت کے لئے فکرمند نہیں رہتے، وہ اپنے دین کو وسعت دینے کے لئے کوشاں نہیں رہتے اور نہ ہی اس کے فروغ کے لئے مشنریز قائم کرتے ہیں۔ عیسائیوں کو یہودیوں سے مذہبی نقطہ نظر سے خطرہ نہیں، کیونکہ یہودیت کی تعلیمات میں لچک نہیں، زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کی صلاحیت نہیں، اس کے برخلاف اسلام ہی عیسائیت کے لئے خطرہ ہے۔ مسلمان مذہب پر قائم رہتے ہوئے دنیا کی ترقی سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ دنیا میں کوئی مذہب اسلام کی طرح مبنی بر حقائق نہیں اور نہ ہی کسی کی تعلیمات میں جامعیت اور کمال ہے اور نہ ہی ہر زمانے کے مطابق ڈھلنے کی صلاحیت ہے۔ عیسائیت کو خطرہ ہے تو صرف اسلام اور مسلمانوں سے ہے، اس لئے آج مغربی ممالک اسلامی ممالک پر حملہ آور ہیں۔ یہودیوں کے پشت پناہ ہیں تو یہ صرف عیسائیت کی اسلام دشمنی ہی ہے۔
بظاہر آج غزہ میں مسلمانوں کی قیامت خیز تباہی کا اسرائیل ذمہ دار ہے، لیکن حقیقت میں یہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف یہودیت اور نصرانیت کی مشترکہ کھلی یلغار ہے۔ یہودیوں کی دشمنی عیاں ہے اور عیسائیوں کی نفرت و عداوت پوشیدہ ہے۔ یہودیوں کا وار اور ہتھیار واضح ہے، لیکن عیسائیوں کا مکر سم قاتل اور تہہ بہ تہہ ہے۔
کیا یہودی بھول گئے، جب یورپ کی سلطنتیں یہودیوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتی تھیں تو عثمانی ترکوں نے انھیں صدیوں تک تحفظ فراہم کیا تھا۔ کیا وہ بھول گئے، جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے بیت المقدس کی فتح کے بعد یہودیوں کو ان کی جان و مال کی حفاظت کا وعدہ کیا تھا اور معاہدہ کی رو سے ان کی عبادت گاہیں (صومعے) محفوظ تھیں۔
علامہ اقبال نے ۱۹۲۹ء میں ’’برطانیہ کی یہود نوازی کے خلاف احتجاج‘‘ کے زیر عنوان تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ترک، یہودیوں کے ساتھ غیر معمولی رواداری کا سلوک کرتے رہے۔ یہودیوں کی خواہش پر انھیں دیوار براق کے ساتھ کھڑے ہوکر گریہ و بکا کی اجازت عطا کی، اسی وجہ سے اس دیوار کا نام ان کی اصطلاح میں ’’دیوار گریہ‘‘ مشہو ہو گیا۔ شریعت اسلامیہ کی روس سے مسجد اقصیٰ کا سارا احاطہ وقف ہے، جس پر قبضہ اور تصرف کا یہود اب دعویٰ کرتے ہیں، تاہم قانونی اور تاریخی اعتبار سے اس کا حق انھیں ہرگز نہیں پہنچتا‘‘۔ (گفتار اقبال، بحوالہ معیار، جولائی۔ دسمبر ۲۰۱۰)
غزہ میں مسلمانوں پر ڈھائی جانے والی قیامت عرب ممالک کی بے حسی و خود غرضی اور اہل اسلام کی بے بسی بلاشبہ زندہ قوموں کے لئے موت سے کم نہیں۔ دنیائے اسلام میں ایک ارب سے زیادہ مسلمان آباد ہیں، لیکن معیار، قوت ارادہ پست و فروتر ہے۔ مسلمان اپنے اہداف و مقاصد سے بیگانہ ہیں، اسلام کی سربلندی کی فکر سے ناآشنا ہیں۔ جب آسٹریلیا کے بعض علاقوں میں انسانی آبادی ناپید اور لاتعداد دیمکوں کے گروہ در گروہ دکھائی دیئے تو کسی نے کیا خوب کہا کہ ’’آبادی کی اس غالب اکثریت کی بناء دیمکوں کو انسانوں پر برتری نہیں دی جاسکتی‘‘۔ یہی حال مسلم ممالک کی کثرت کا ہے، جس کے مقابل میں یہود کی تنہا مملکت پچاس سے زائد مسلم ممالک کو دعوت مبارزت دے رہی ہے اور ان ممالک میں ایک بھی ایسا ملک نہیں، جو اس دعوت مبارزت کو قبول کرکے اس میدان کارزار میں شجاعت و بسالت کی مثال بنے۔ نہ جانے کتنے اسلامی ممالک تباہ ہوں گے اور کتنے لاکھ مسلمان اسلامی اتحاد کے جذبہ کو بیدار کرنے کے لئے اپنی جانوں کی نذر پیش کریں گے۔ نہ جانے وہ وقت کب آئے گا کہ مسلمان اپنے مفادات و اغراض کو بالائے طاق رکھ کر فروعی و جزوی مسائل کے اختلاف کی کشمکش سے نکل کر اسلام کی سربلندی اور عظمت کے لئے ایک جٹ اور متحد ہوں گے، کیونکہ جلال اسلامی کا سورج اتحاد اسلامی کے شفق سے ہی طلوع ہوگا۔