اسلام میں تصورِ جنگ

قاری ایم ایس خان

قرآن و حدیث کی واضح تعلیمات کے مطابق اسلامی نظام کی تشکیل اصلاً جان و مال کی حفاظت اور امن و امان کے قیام کے لئے عمل میں آتی ہے، اسی لئے قرآن کریم میں انسانی جانوں کی حفاظت اور ان کے احترام کو خاص اہمیت دی گئی ہے۔ قرآن کریم میں انسانی عظمت و تقدس کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا گیا ہے: ’’اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی، ان کو خشکی و سمندر میں سواری دی، پاکیزہ روزی عطا کی اور اپنی بہت سی مخلوقات پر فضیلت دی‘‘۔ (سورۂ بنی اسرائیل۔۷۰)
قرآن کریم کسی ایک انسان کے بھی ناحق قتل کو خواہ وہ مؤمن ہو یا غیر مؤمن، عالمی فساد اور تباہی کا پیش خیمہ قرار دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’جو شخص کسی کو (ناحق) قتل کرے گا (یعنی) بغیر اس کے کہ جان کا بدلہ لیا جائے یا ملک میں خرابی کرنے کی سزا دی جائے، اس نے گویا تمام لوگوں کو قتل کیا اور جو اس کی زندگانی کا موجب ہوا اور ان لوگوں کے پاس ہمارے پیغمبر روشن دلیلیں لاچکے ہیں، پھر اس کے بعد بھی ان میں بہت سے لوگ ملک میں حد اعتدال سے نکل جاتے ہیں‘‘۔ (سورۂ مائدہ۔۳۲)

قرآن پاک میں لوگوں کے اموال و املاک کی بربادی پر سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا۔ ایک جگہ تخریب پسند حکمرانوں کی ان الفاظ میں تصویر کشی کی گئی ہے: ’’اور جب ذمہ داری ملتی ہے تو اس کی ساری تگ و دو اس لئے ہوتی ہے کہ وہ زمین میں فساد مچائے، فصلوں اور نسلوں کو برباد کرے، مگر اللہ تعالیٰ فساد کو پسند نہیں کرتا‘‘۔ (سورۂ بقرہ۔۲۰۵)
مذکورہ آیات کی روشنی میں یہ بات واضح طورپر سامنے آتی ہے کہ جنگ اسلام کو پسند نہیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسلام کسی بھی شکل میں جنگ کی اجازت نہیں دیتا، بلکہ شروط و قیود کے ساتھ ایسی صورتوں میں جنگ کی ترغیب دیتا ہے، جہاں اس کے علاوہ کوئی اور راستہ نظر نہیں آتا۔ ساتھ ہی یہ احساس دلاتا ہے کہ جنگ کی تباہ کاریوں اور ان کے بالکل برعکس اسلام کی تعلیمات امن کے ہوتے ہوئے اس کی اجازت دینا ایک انتہائی حساس معاملہ ہے۔ اسی حساسیت کے پیش نظر اسلام نے جنگ کے اخلاقی اور قانونی ضابطے مقرر کئے، تاکہ یہ دنیا میں فساد کا پیش خیمہ نہ بن سکے، کیونکہ اگر ان اصولوں اور ضوابط کے کسی باریک ترین پہلو کو بھی نظرانداز کردیا جائے تو اسلامی جنگ جس کو پاکیزہ جہاد کہا جاتا ہے، فساد فی الارض میں بدل جائے گی۔
جب کسی قوم پر ظلم کیا جا رہا ہو توایسی صورت میں اسلام مظلوموں کو اجازت دیتا ہے کہ وہ جنگ کریں اور ظالموں کو ظلم سے روکیں۔ اپنے اوپر ہو رہے مظالم کو سہتے رہنا، حتی کہ اپنے افکار و نظریات تک سے مصالحت کرلینا صریح بزدلی ہے، جسے اسلام بالکل نہیں پسند کرتا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور دیکھو بزدل نہ ہونا اور نہ کسی طرح کا غم کرنا، اگر تم مؤمن (صادق) ہو تو تم ہی غالب رہوگے‘‘ (آل عمران۔۱۳۹) کیونکہ ایسی صورت میں مظلوموں کو ہمیشہ ظلم برداشت کرنا پڑے گا۔ ان پر موت کا خوف اور دنیا کی محبت اس قدر غالب آجائے گی کہ انھیں اس کا خیال بھی نہیں رہے گا کہ وہ مظلوم ہیں، بلکہ ظلم کی چکیوں میں پستے رہنا ان کا شیوہ بن جائے گا اور ظالم انھیں تختۂ مشق بناتے رہیں گے۔

ظالم و جابر اور جرائم پیشہ قومیں جب کسی پر حملہ آور ہوتی ہیں تو تمام ضابطۂ انسانیت اور اخلاقی اقدار کو پس پشت ڈال کر وحشیانہ برتاؤ کرنے لگتی ہیں، لیکن اسلامی جنگ میں سخت تاکید کی جاتی ہے کہ کسی پر ذرہ برابر بھی ظلم و زیادتی نہ ہونے پائے۔ قرآن پاک میں ہے: ’’اور جو لوگ تم سے لڑتے ہیں، تم بھی اللہ کی راہ میں ان سے لڑو، مگر زیادتی نہ کرنا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ زیادتی کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا‘‘۔
ظالموں کے خلاف جنگ کی اجازت کے ساتھ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جنگ جو دراصل کشت و خون کی دعوت دیتی ہے، تباہی و بربادی جس کا لازمی نتیجہ ہے، کیوں لڑی جائے؟۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق اسلامی جنگ (جہاد) صرف اسے کہا جاسکتا ہے، جس میں کہیں بھی مادی مقاصد کا دُور تک شائبہ نہ پایا جاتا ہو۔ اپنے گروہ کے لئے حکومت و اقتدار کا حصول، بلندی و برتری کا جذبہ، معاشی وسائل و ذرائع پر کنٹرول کی خواہش وغیرہ، یہ وہ مقاصد ہیں، جن کے حصول کے لئے ہی مفاد پرست اور استعماری دنیا جنگیں لڑ رہی ہے۔ اسلام ان تمام مادی اغراض و مقاصد کے لئے لڑی جانے والی جنگ کو ’’فساد فی الارض‘‘ قرار دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’وہ (جو) آخرت کا گھر (ہے) ہم نے اسے ان لوگوں کے لئے (تیار) کر رکھا ہے، جو ملک میں برتری اور فساد کا ارادہ نہیں کرتے اور (نیک) انجام تو پرہیزگاروں ہی کا ہے‘‘۔ (سورۂ قصص۔۸۳)
حضرت داؤد علیہ السلام کو جب عظیم الشان سلطنت دی گئی تو انھیں تاکید کی گی کہ انصاف سے فیصلہ کریں اور خواہش نفس کی پیروی نہ کریں۔ قرآن پاک میں ہے: ’’اے داؤد! ہم نے تم کو زمین میں بادشاہ بنایا ہے تو لوگوں میں انصاف کے فیصلے کیا کرو اور خواہش نفس کی پیروی نہ کرنا کہ وہ تمھیں اللہ کے راستے سے بھٹکا دے گی۔ جو لوگ اللہ کے راستے سے بھٹکتے ہیں، ان کے لئے سخت عذاب (تیار) ہے کہ انھوں نے حساب کے دن کو بھلا دیا‘‘۔ (سورہ ص۔۲۶)
اسلام ارباب اقتدار سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ ہر اچھی بات کو لوگوں میں عام کریں اور انھیں اس کا عادی بنائیں۔ قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے: ’’یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم ان کو ملک میں دسترس دیں تو نماز پڑھیں اور زکوۃ دیں اور نیک کام کرنے کا حکم دیں اور برے کاموں سے منع کریں اور سب کاموں کا انجام اللہ ہی کے اختیار میں ہے‘‘۔ (سورۂ حج۔۴۱)