سید شہباز
لفظ ’’سلم‘‘ سے اسلام بنا ہے، جس کے معنی بچنے، محفوظ رہنے، سلامتی پانے اور فراہم کرنے کے ہیں۔ باب افعال میں اسی مادہ ’’سلم‘‘ سے ’’اسلام‘‘ بنا، جس کے جملہ چار معنی آتے ہیں: (۱) سلامتی (۲) سرتسلیم خم کرنا (۳) صلح و آشتی (۴) بلندی۔ عربی میں ’’السلم‘‘ بلند درخت کو بھی کہتے ہیں۔ حدیث شریف میں ہے کہ ’’مسلمان وہ ہے، جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے‘‘ یعنی ہم سلامتی کے ساتھ رہیں اور دوسروں کو بھی نقصان نہ پہنچائیں۔
اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے پسندیدہ دین اسلام ہے۔ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے: ’’یقیناً دین اللہ تعالیٰ کے نزدیک اسلام ہے‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لئے اسلام کو منتخب کرلیا۔ اب اگر کوئی اسلام کو چھوڑکر دوسرا راستہ اختیار کرے گا تو وہ دنیا و آخرت میں ناکام و نامراد ہوگا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’جو کوئی اسلام کے علاوہ دوسرے دین کو چاہے گا تو اس سے وہ ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔ اسلام کہتے ہیں ان اصولوں کو، جن کو اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں پر نازل فرمایا اور ان اصولوں کو جاننا گویا کہ رضائے الہٰی کو جاننا ہے اور ان پر عمل کرنا گویا کہ اللہ تعالیٰ کا فرماں بردار بننا ہے۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ہم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر تھے کہ ایک شخص ہماری محفل میں آیا۔ ہم میں سے کوئی بھی اس شخص کو پہچانتا نہیں تھا۔ وہ شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنوں سے اپنے گھٹنے ملاکر بیٹھ گیا اور عرض کیا: ’’یارسول اللہ! ہمیں اسلام کے بارے میں بتائیے‘‘۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’اسلام یہ ہے کہ تم گواہی دو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور یہ کہ تم نماز قائم کرو، زکوۃ ادا کرو، روزہ رکھو اور اگر استطاعت ہو تو حج کرو‘‘۔ یہ فرمان سننے کے بعد اس شخص نے کہا: ’’آپ نے سچ کہا‘‘۔ یہ سوال کرنے والے حضرت جبرئیل علیہ السلام تھے، جنھیں کوئی نہیں جانتا تھا۔ (مشکوۃ شریف، کتاب الایمان)
اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے۔ گواہی دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سواء کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں، نماز قائم کرنا، زکوۃ ادا کرنا، حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا‘‘۔ (متفق علیہ، مشکوۃ شریف۔ کتاب الایمان)
آج اسلام کو بدنام کیا جا رہا ہے کہ یہ مذہب تلوار سے پھیلا ہے، جب کہ اسلام اخلاق و کردار سے پھیلا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کفار و مشرکین کو دین کی دعوت دیتے اور فرماتے: ’’تحقیق کہ میں تم میں اس (قرآن کے نازل ہونے) سے پہلے عمر کا ایک بڑا حصہ گزار چکا ہوں، پھر بھی کیا تم عقل نہیں رکھتے‘‘۔ یعنی آپﷺ کا ایسے لوگوں میں رہنا آپ کے کردار اور اخلاق کریمانہ کا پتہ دیتا ہے۔ کفار و مشرکین آپﷺ کے اخلاق و کردار کے بے حد معترف تھے، لیکن جب دین اسلام قبول کرنے کی بات آتی تو اس معاملے میں سمجھوتہ نہ کرتے، بلکہ مسلمانوں پر ظلم و ستم شروع کردیتے۔ مسلمانوں کو طرح طرح کی اذیت دیتے، کسی کو کوڑوں سے ضرب پہنچاتے، کسی کو تپتی ہوئی ریت پر گھسیٹتے۔ اس دردناک صورت حال کے باوجود حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان جنگ نہیں فرمایا اور نہ ہی تلوار اُٹھانے کا حکم دیا، بلکہ صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو ہمیشہ صبر کی تلقین کرتے رہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ابتدائی ساتھیوں یعنی اسلام لانے والوں میں حضرت ابوبکرصدیق، حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریٰ، حضرت علی مرتضیٰ، حضرت صہیب اور حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہم ہیں، لیکن یہ سب کے سب نہتے تھے۔ ان مبارک ہستیوں نے ہر طرح کے ظلم سہے، لیکن کبھی کسی پر ہاتھ نہیں اٹھایا۔
آج جو لوگ بلادلیل یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اسلام کفار و مشرکین کے قتل کا حکم دیتا ہے، تو انھیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اسلام کا اہم رکن ’’جہاد‘‘ اس وقت مسلمانوں پر فرض ہوتا ہے، جب دشمنان دین مسلمانوں کے خلاف کھلی جنگ پر اُتر آئیں۔ قرآن پاک ہمیں بتاتا ہے اور تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب ہجرت کا عمل پایۂ تکمیل کو پہنچ گیا تو کفار و مشرکین نے مسلمانوں کے خلاف جنگ و جدال کا بازار گرم کیا، یعنی مدینہ منورہ میں بھی چین سے نہیں رہنے دیا۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے دفاع کا حکم نازل فرمایا کہ ’’تم جنگ کرو ان سے جو تم سے جنگ کرتے ہیں، لیکن حد سے آگے نہ بڑھنا، یقیناً اللہ تعالیٰ تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا‘‘۔
قرآنی تعلیمات کے مطابق صحابۂ کرام نے عمل کیا اور ہر میدان میں خواہ وہ میدان جنگ ہی کیوں نہ ہو، حتی الامکان مصالحت کی کوشش کی۔ لیکن جب دشمن کا ظلم حد سے زیادہ بڑھ گیا اور وہ کسی بھی صورت میں صلح کے لئے تیار نہیں ہوا تو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق مسلمانوں نے اپنا دفاع کیا۔ واضح رہے کہ تاریخ اسلام کی پہلی جنگ ’’جنگ بدر‘‘ مدینہ منورہ کے قریب ہونا اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ حملہ مسلمانوں نے نہیں، بلکہ کفار و مشرکین نے کیا تھا۔