صاحبزادہ محمد حسین آزاد ازہری
قربانی خالص روحانی تصور اور اعلیٰ ترین انسانی صفت ہے۔ ابتدائے آفرینش سے ہی قربانی بطور مقدس مذہبی رسم موجود رہی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ سے لے کر آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ظاہری اور پھر قیامت تک آپ کی شریعت میں جاری و ساری ہے۔ اس کی ہیئت و صورت میں اگرچہ فرق رہا، مگر حقیقت باطنی اور روح ہمیشہ ایک ہی رہی اور وہ یہ تھی کہ اپنے معبود حقیقی کی خدمت میں تحفہ یا نذرانہ پیش کرکے اس کے ساتھ اپنی عبودیت و بندگی کا اظہار کیا جائے۔ اسلام چوں کہ ایک مکمل اور جامع دین ہے، جس کا اعلان قرآن حکیم میں اس طرح کیا گیا ہے ’’آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لئے اسلام کو (بطور) دین پسند کرلیا‘‘۔ اس اعتبار سے اسلام میں قربانی کا تصور بھی انتہائی پاکیزہ، مقدس اور نکھرا ہوا تکمیلی شان کے ساتھ موجود ہے۔ اسلام میں سنت ابراہیمی خیال کرتے ہوئے اللہ تعالی سے ثواب پانے کی نیت سے ذی الحجہ کی دس، گیارہ اور بارہ تاریخوں میں مخصوص جانور ذبح کرنا قربانی کہلاتا ہے۔
حضرت آدم و حوا علیہما السلام سے ہر روز ایک لڑکا اور ایک لڑکی پیدا ہوتی تھی اور حضرت آدم علیہ السلام حسب فرمان خداوندی ایک حمل کی اولاد کا دوسرے حمل کی اولاد سے نکاح کردیتے تھے۔ اس قاعدہ کی روح سے آپ نے ایک لڑکی ہابیل کے عقد میں دینا چاہا، مگر آپ کا دوسرا بیٹا قابیل مزاحم ہوا، جو اس لڑکی کا خود طالب تھا۔ حضرت آدم علیہ السلام نے اس وقت بحکم خداوندی دونوں کو اللہ تعالی کے حضور نیاز گزارنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ اس قربانی کی اللہ کے ہاں مقبولیت ہے۔ قربانی کی قبولیت کی پہچان آگ کا آسمان سے اترکر اس قربانی کو کھانا تھا اور یہ اس لڑکی کے صحیح مستحق کی علامت تھی۔ مختصر یہ کہ قربانی پیش کی گئی اور ہابیل کی قربانی قبول ہوئی، جس پر قابیل کی آتش حسد و انتقام بھڑک اٹھی۔ اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے ’’اور (اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ) ان کو آدم کے دو بیٹوں کا قصہ بھی ٹھیک ٹھیک پڑھ کر سنا دیجئے۔ جب ان دونوں نے (بارگاہ خداوندی میں) نیازیں پیش کیں (قربانی کے ذریعہ تقرب الہی تلاش کیا) تو ان دنوں میں سے ایک کی نیاز قبول ہو گئی اور دوسرے کی قبول نہ ہوئی۔ اس پر غصہ میں (آکر حسد کے باعث ہابیل سے قابیل نے) کہا میں تجھے مارڈالوں گا۔ (ہابیل نے) جواب دیا (اس میں غصہ کی کیا بات ہے) اللہ تو پرہیزگاروں سے (قربانی) قبول فرماتا ہے (یعنی قربانی میں نیت کا خلوص دیکھتا ہے) ۔
اسی طرح قربانی ہر امت کے لئے مقرر کی گئی، جس کا ذکر کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے ’’اور ہم نے ہر امت کے لئے قربانی مقرر کردی ہے، تاکہ جو چوپائے اللہ نے انھیں عطا فرمائے ہیں (ان کے ذبح کے وقت) ان پر اللہ کا نام لیں۔ پس (یاد رکھو کہ) تمہارا معبود تو وہی ایک خدا ہے، تم اس کی فرماں برداری کرو اور (اے رسول جو دین اسلام کا مطیع و فرماں بردار ہو جائے تو ان ) عاجزی کرنے والوں کو آپ (اللہ کی خوشنودی کی) بشارت سنا دیجئے‘‘۔
مذکورہ آیت کریمہ سے بھی مسلمانوں پر قربانی کرنا لازم قرار پایا، مگر درج ذیل آیت کریمہ میں خاص طورپر امت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا جا رہا ہے ’’اور قربانی کے بڑے جانوروں (یعنی اونٹ اور گائے وغیرہ) کو ہم نے تمہارے لئے اللہ کی نشانیوں میں سے بنا دیا ہے، ان میں تمہارے لئے بھلائی ہے۔ پس تم (انھیں) قطار میں کھڑا کرکے (نیزہ مارکر نحر کے وقت) ان پر اللہ کا نام لو۔ پھر جب وہ اپنے پہلو کے بل گرجائیں تو تم خود (بھی) اس میں سے کھاؤ اور قناعت سے بیٹھے رہنے والوں کو اور سوال کرنے والے (محتاجوں) کو (بھی) کھلاؤ۔ اس طرح ہم نے انھیں تمہارے تابع کردیا ہے، تاکہ تم شکر بجالاؤ‘‘۔ اسی طرح ایک اور مقام پر نماز کے ساتھ قربانی کا حکم دیتے ہوئے قرآن ارشاد فرماتا ہے ’’پس آپ اپنے رب کی نماز پڑھا کیجئے اور قربانی دیا کیجئے‘‘۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی دن (ماہ ذی الحجہ کے) پہلے دس دن سے زیادہ اللہ تعالی کو محبوب نہیں ہے۔ (یہ سن کر صحابہ کرام نے عرض کیا ’’(کیا) اللہ کی راہ میں جہاد کرنا (بھی محبوب نہیں؟) ‘‘۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ہاں، جہاد فی سبیل اللہ بھی (اتنا محبوب) نہیں، مگر وہ آدمی جو اپنی جان اور مال کے ساتھ نکلتا ہے (اور سب کچھ اللہ کی راہ میں قربان کرکے) کسی چیز کے ساتھ واپس نہیں آیا۔ (بخاری شریف)
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا یوم النحر (دسویں ذی الحجہ) میں ابن آدم کا کوئی عمل خدا کے نزدیک قربانی کرنے سے زیادہ محبوب نہیں اور وہ جانور قیامت کے دن اپنے سینگ، بال اور کھروں کے ساتھ آئے گا اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے خدا کے نزدیک شرف قبولیت حاصل کرتا ہے، لہذا اسے خوش دلی سے کرو‘‘۔ (ابوداؤد، ترمذی، ابن ماجہ)
قربانی صرف مسلمان پر واجب ہے، غیر مسلم پر نہیں۔ قربانی مقیم پر ہے مسافر پر نہیں، ہاں اگر مسافر نفلی قربانی کرنا چاہے تو کوئی حرج نہیں۔ قربانی صرف مرد پر واجب نہیں، عورت بھی قربانی دے سکتی ہے۔ جس شخص کو وسعت ہو کہ وہ اپنی واجب قربانی کے علاوہ بھی قربانی دینے کی توفیق رکھتا ہے تو وہ اپنے ماں باپ، اساتذہ اور دیگر بزرگان دین کی طرف سے بھی ایصال ثواب کے لئے نفلی قربانیاں دے سکتا ہے۔ بالخصوص آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے قربانی کرنے میں زیادہ فضیلت ہے، کیونکہ آقا علیہ الصلوۃ والسلام کا معمول یہ تھا کہ آپ ایک قربانی اپنی طرف سے اور ایک اپنی امت کی طرف سے کیا کرتے تھے۔