اسلام آباد ہائی سیکوریٹی زون کا محاصرہ، صورتحال کشیدہ

ممتاز قادری کو ’’شہید‘‘ قرار دینے کا مطالبہ، پارلیمنٹ ہاؤز اور دیگر عمارتوں کے روبرو حامیوں کا دھرنا
اسلام آباد ۔ 28 مارچ ۔ ( سیاست ڈاٹ کام ) ممتاز قادری کے ہزاروں حامیوں نے انھیں ’’شہید‘‘ قرار دیئے جانے کا مطالبہ کرتے ہوئے پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد کے ہائی سکیورٹی زون کا آج محاصرہ کرلیا ۔ کل ان کے چہلم پر راولپنڈی میں نماز کی ادائیگی کے بعد تقریباً 25 ہزار احتجاجیوں نے رکاوٹوں کو توڑتے ہوئے اسلام آباد ریڈزون کی طرف بڑھنے کی کوشش کی تھی ۔ ان میں تقریباً 3 ہزار حامیوں نے پارلیمنٹ ہاوز اور دیگر کلیدی سرکاری تنصیبات کے روبرو احتجاجی دھرنا آج دوسرے دن بھی جاری رکھا ۔ ممتاز قادری کو آزاد خیال پنجاب گورنر سلمان تاثیر کے قتل پر 29 فبروری کو پھانسی دی گئی ۔ سلمان تاثیر نے توہین رسالتؐ قانون میں اصلاحات کی تائید کی تھی اور انھوں نے گستاخانہ کلمات کہے جس پر برہم ہوکر ممتاز قادری نے جو ان کے پرسنل سکیورٹی گارڈ تھے 2011 ء میں انھیں ہلاک کردیا۔ کل احتجاجیوں پر قابو پانے کیلئے پولیس اور رینجرس نے آنسو گیس کے شیلس چھوڑے تھے ۔ جیو نیوز کے مطابق جھڑپوں میں تقریباً 42 سکیورٹی عہدیدار اور 16 شہری زخمی ہوگئے ۔ میڈیا کوبھی احتجاجیوں کے غیض و غضب کا سامنا کرنا پڑا اور ان کے نمائندوں پر حملے کرتے ہوئے کئی افراد کو زخمی اور ان کے آلات کو نقصان پہنچایا گیا ۔ احتجاجیوں کا دعویٰ ہے کہ میڈیا اس واقعہ کو صحیح تناظر میں نہیں پیش کررہا ہے ۔ سنی تحریک اور تحریک لبیک یا رسول ؐ کی زیرقیادت تقریباً 10 ہزار احتجاجی پولیس کے ساتھ خونریز جھڑپ کے بعد نام نہاد ہائی سکیورٹی ریڈزون میں داخل ہوگئے ۔ لاء اینڈ آرڈر کی ابتر صورتحال کے بعد حکومت نے فوج تعینات کردی ۔ احتجاجیوں نے کہا کہ وہ ریڈزون میں اس وقت تک رہیں گے جب تک ممتاز قادری کو ’شہید‘ اور ملک میں شرعی قانون پر عمل نہیں کیا جاتا ۔ انھوں نے گرفتار قائدین کی رہائی اور ممتاز قادری کو جس ادیالہ جیل سیل میں رکھا گیا اسے قومی ثقافتی ورثہ میں تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا ۔موجودہ صورتحال سے نمٹنے کیلئے حکومت کی پس پردہ کوششیں جاری ہیں۔  ایک عہدیدار نے بتایا کہ اب تک حکومت نے احتجاجیوں کے تخلیہ کیلئے طاقت کا استعمال نہیں کیا ہے کیونکہ پرامن طورپر منتشر ہونے کیلئے ان کے قائدین سے پس پردہ کوششیں جاری ہیں ، اس دوران دارالحکومت اسلام آباد اور قریبی راولپنڈی کے رہنے والوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ کئی علاقوں میں موبائیل فون خدمات معطل اور انٹرنیٹ کی رفتار سست ہوگئی تھی ۔ اس کے علاوہ اسلام آباد جانے والی تمام سڑکوں کے داخلہ پوائنٹس پر سکیورٹی چیکنگ کے باعث ٹریفک کی آمد و رفت بھی کم تھی ۔ مظاہرین کی قیادت کرنے والوں نے اسلام آباد انتظامیہ سے کسی بھی قسم کے مذاکرات کرنے سے انکار کر دیا ہے اور کہا ہیکہ وہ حکومتی نمائندوں سے ہی بات چیت کریں گے۔ مظاہرین کا مطالبہ ہیکہ زیرحراست مذہبی کارکنوں کو رہا کیا جائے۔ اتوار کی شب اسلام آباد انتظامیہ کی جانب سے فوج کو طلب کر لیا گیا تھا۔ پولیس کی بھاری جمعیت اور 600 کے قریب فوجی اہلکار ریڈ زون میں واقع سرکاری عمارتوں کی حفاظت کیلئے موجود ہیں۔