اسلامی نقطۂ نظر سے بہترین ساتھی کون؟

حافظ سید شاہ مدثر حسینی
مندرجہ بالا تفصیل سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مؤمنوں کے لئے آخرت میں جنت اسی وقت حاصل ہوگی، جب وہ آزمائشوں سے گزرتے ہوئے ثابت قدمی کا ثبوت دیں گے۔
انسانی زندگی پر دوست کے انتہائی گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں جس طرح برے دوست کی سنگت انسان کو برائیوں پر آمادہ کرتی ہے اسی طرح نیک وصالح اور متقی دوست کی اچھائیوں کا اثربھی اپنے دوست پر پڑتا ہے دوسرے لفظوں میں صالح دوست کے ذریعہ زندگی اسلامی سانچے میں ڈھلتی ہے اور برے دوست کی دوستی کی وجہ سے انسان تعلیماتِ اسلامی سے روگردانی اختیار کرتا ہے۔ دین اسلام نے روزاول ہی سے دوست کا صحیح تصور ہمیں عطا فرمایا۔ قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا ہے: ’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور اہل صدق کی (معیت) میں شامل رہو‘‘ (التوبۃ:۱۱۹)

گویا اسلام نے ہمیں دوستی کا جو ضابطہ واصول فراہم کیا ہے وہ صداقت پر مبنی ہے۔ سرورِکائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ بہترین ساتھی کون ہے؟ حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: وہ شخص بہترین دوست ہے کہ اگر تو نیک کام سے غفلت کرے تو وہ تجھے متنبہ کرے اور تیرے نیک کاموں میں تیری اعانت کرے اور برا دوست وہ ہے کہ اگر تو نیک کاموں سے غفلت کرے تو وہ تجھے متنبہ نہ کرے اور نیک کاموں میں تیری مدد نہ کرے۔ سیدنا ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سات آدمیوں کو اللہ اپنے سائے میں رکھے گا جس دن سوائے اس کے سائے کے کوئی سایہ نہ ہوگا۔ ۱) عادل حاکم۔ ۲) وہ نوجوان جس کی جوانی اللہ کی عبادت میں گزری۔ ۳) وہ شخص جس کا دل مساجد میں لگارہتاہو۔ ۴) وہ دواشخاص جو باہم صرف اللہ کیلئے دوستی کریں تو اسی کیلئے اور جب جدا ہوں تو اسی کیلئے۔ ۵) وہ شخص جس کو کوئی منصب اور جمال والی عورت بدکاری کیلئے بلائے اور وہ یہ کہہ دے کہ میں اللہ سے ڈرتاہوں، اس لئے میں نہیں آسکتا۔ ۶) وہ شخص جو چھپاکر صدقہ دے یہاں تک کہ اس کے بائیں ہاتھ کو معلوم نہ کہ اس کے داہنے ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے۔ ۷) وہ شخص جو خلوت میں اللہ کو یادکرے اور اس کی آنکھیں آنسوؤں سے ترہوجائیں۔ (صحیح بخاری) حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں کہ رسولِ اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے لہٰذا ہرآدمی کو دیکھنا چاہئے کہ و ہ کسے اپنا دوست بنارہاہے۔ آدمی وہی راستہ اختیار کرتا ہے جو اس کے دوست کا ہوتا ہے اس لئے ہمیں صالح دوست کی سنگت اختیار کرنی چاہئے، کیونکہ جن لوگوں نے دنیا میں بدکرداروں کے ساتھ دوستی رکھی ہوگی انہیں آخرت میں شرمندگی اور پچھتاوے کے کچھ حاصل نہیں ہوگا وہاں ان کی زبانوں سے بے اختیار نکلے گا ہائے افسوس کاش میں فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا۔ (الفرقان)

حدیثِ مبارکہ میں اچھے دوست کی علامتیں بھی بتادی گئیں۔ حدیثِ مباکہ کا مفہوم ہے کہ اچھا ہم نشیں وہ ہے جسے دیکھنے سے خدایاد آئے اور اس کی گفتگو سے عمل میں زیادتی ہواور اس کا عمل تمہیں آخرت کی یاددلائے۔ نیک اور صالح دوست کی دوستی دنیا میں بھی سودمند ہوتی ہے، قبرمیں بھی نیکوکار کی صحبت عذاب میں تخفیف اور درجات کی بلندی کا باعث ہوتی ہے۔ غرض کہ نیک صالح دوست کی رفاقت جنت کی راہ ہموار کرتی ہے۔ نبیٔ اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’صالح آدمی کے پاس بیٹھنے والوں کی مثال اس شخص کی مانند ہے جو مشک والے کے پاس ہے۔ اگر مشک نہ بھی ملے تب بھی مشک کی خوشبو سے جسم معطر اور دماغ کو فرحت وسرور حاصل ہوگا اور بُرے دوست کی مثال آگ کی بھٹی جیسی ہے کہ اگر چنگاری نہ بھی پڑے تو دھواں سے دامن ضرور سیاہ ہوجائے گا۔ فرمانِ رسولِ اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہے کہ: ’’بُرے ہم نشین کے مقابلہ میں تنہائی بہتر ہے اور اچھے آدمیوں کی ہم نشینی تنہائی سے بہتر ہے‘‘۔ (بیہقی) حضرت جنید بغدادیؒ فرماتے ہیں: ’’ایسے شخص سے دوستی کرو جو نیکی کرکے بھول جائے اور جو حق اس پر ہو وہ اداکرے‘‘۔ شیخ سعدیؒ کا قول ہے: ’’مجھے ایسے دوست کی دوستی پسند نہیں جو میرے عیب کو ہنر جانے اور میرے کانٹوںکو گلاب ویاسمین کا نام دے۔‘‘ مسلمان بھائیوں: ہمیں اپنی دوستی کا جائزہ لینا ہوگا۔ کیا واقعی ہماری دوستی ان اصول وضوابط کا احاطہ کئے ہوئے ہیں جو اسلام نے ہمیں عطا کئے ہیں؟ کیا واقعی ہمارے احباب ہمیں نیکیوں کی ترغیب دیتے ہیں؟ کیا واقعی ہمارے نشین ہمیں گناہوں پر متنبہ کرتے ہیں؟ لہٰذا اپنے گردوپیش کا جائزہ لیں اور ان کی دوستی اختیار کریں جو سچے ہوں۔ اگر ہمارے دوستوں میں مذکورہ بالا اوصافِ حمیدہ موجود نہیں ہیں، تب ایسے دوستوں سے کنارہ کشی اختیار کرنا ہی ہمارے حق میں بہتر ومفید ہوگا، مگر ساتھ ہی بحیثیت مسلمان ہمارا یہ بھی فریضہ ہے کہ ہم انہیں نیکی کی دعوت دیں تاکہ وہ راہِ راست پر آجائیں