اسلامی عدالت میں سب برابر

مولانا غلام رسول سعیدی

عدل و انصاف کا ایک اہم جزو عام مساوات ہے، یعنی دیوان عدالت میں شاہ و گدا، امیر و غریب، شریف و رذیل، سب کو برابر حیثیت دی جائے۔ ایک دفعہ حضرت عمر؄ اور ابی بن کعب میں کسی بات پر نزاع تھا۔ ابی بن کعب نے زید بن ثابت کی عدالت میں مقدمہ دائر کردیا اور حضرت عمر مدعا علیہ کی حیثیت سے حاضر ہوئے۔ زید نے اُٹھ کر آپ کی تعظیم کی۔ آپ نے فرمایا: ’’یہ تمہارا پہلا ظلم ہے‘‘ یہ فرماکر ابی بن کعب کے برابر بیٹھ گئے۔ ابی بن کعب کے پاس اپنے دعویٰ کے ثبوت پر کوئی گواہ نہ تھا اور حضرت عمر؄ کو ان کے دعویٰ پر انکار تھا۔ اس لئے قاعدہ کے مطابق حضرت عمر پر قسم لازم آتی تھی۔ زید بن ثابت نے حضرت عمر کی شخصیت اور  ان کے رتبہ کا لحاظ کرتے ہوئے ابی بن کعب سے کہا: ’’امیر المؤمنین کو قسم سے معاف رکھو‘‘۔ حضرت عمر فاروق؄ اس طرفداری پر سخت رنجیدہ ہوئے اور فرمایا: ’’جب تمہارے نزدیک ایک آدمی اور سربراہ مملکت دونوں برابر نہ ہوں تو تم منصب قضاء کے اہل نہیں سمجھے جاسکتے‘‘۔
حضرت فاروق اعظم؄ نے تمام عمال حکومت کو حکم دیا تھا کہ ہر سال حج کے زمانہ میں حاضر ہوں، کیونکہ حج کے موقع پر تمام اطراف کے لوگ موجود ہوتے ہیں۔ حضرت فاروق اعظم کھڑے ہوکر بآواز بلند فرماتے تھے کہ جس شخص کو کسی عامل سے کوئی شکایت ہو تو اس کو پیش کرے۔ چنانچہ ذرا ذرا سی شکایتیں پیش ہوتی تھیں اور تحقیق کے بعد ان شکایات کا ازالہ اور تدارک کیا جاتا تھا۔ ایک دفعہ حضرت فاروق اعظم نے بہت بڑے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’صاحبو! عمال اور گورنروں کا تقرر اس لئے نہیں کیا جاتا کہ وہ بلاوجہ تم کو سزائیں دیں یا تمہارا مال چھین لیں، بلکہ میں ان لوگوں کو اس لئے مقرر کرتا ہوں کہ وہ تم کو اسوۂ رسولﷺ کی تعلیم دیں اور معاشرہ میں عدل و انصاف قائم کریں، اقتصادی توازن برقرار رکھیں اور تمہاری تمام جائز ضرورتوں کو پورا کریں۔ پس اگر کسی عامل یا گورنر نے اس کے خلاف عمل کیا ہے تو مجھے بتاؤ، تاکہ میں اس کا قصاص لوں‘‘۔ یہ سن کر مصر کے گورنر حضرت عمرو بن العاص؄ کھڑے ہوکر کہنے لگے: ’’اگر کوئی گورنر یا عامل تادیباً کسی کو مارے گا، تب بھی آپ اس کو سزا دیں گے؟‘‘۔ حضرت فاروق اعظم نے فرمایا: ’’قسم ہے رب ذوالجلال کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، میں ضرور اس کو سزا دوں گا، کیونکہ میں نے خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ خبردار! مسلمانوں کو بلاوجہ مارا نہ کرو، ورنہ ان کی عزت و آبرو محفوظ نہ رہ سکے گی‘‘۔
ایک دفعہ حسب معمول تمام لوگ حاضر تھے، ایک شخص نے عرض کیا کہ آپ کے عامل نے مجھ کو بے قصور سو کوڑے مارے ہیں۔ حضرت فاروق اعظم نے مستغیث کو حکم دیا کہ مجمع عام میں اس عامل کو سو کوڑے لگاکر اپنا قصاص لے۔ حضرت عمرو بن العاص نے کھڑے ہوکر کہا: ’’یہ فیصلہ عمال پر بہت گراں گزرے گا‘‘۔ حضرت فاروق اعظم نے فرمایا کہ ’’عزت سو بار مجروح ہو، لیکن عمر سے یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ مجرموں کو سزا نہ دے اور حق دار کو اس کے جائز حق سے محروم کردے‘‘۔ (طبری مع توضیح و تفصیل)
حضرت فاروق اعظم نے اس موقع پر یہ ظاہر کیا کہ میں کیا ہوں اور تم کیا ہو اور تمہاری عزت و وقار کیا ہے؟ دونوں عالم کے سردار اور اللہ کے محبوبﷺ نے ایک بار مجمع عام میں خود کو قصاص کے لئے پیش کردیا تھا۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ غزوۂ بدر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم صحابۂ کرام کی صفیں درست فرما رہے تھے۔ سواد بن عزیہ ایک خوش طبع اور خوش فہم صحابی تھے، وہ اچانک صف سے آگے نکل کر کھڑے ہوگئے۔ حضورﷺ کے دست اقدس میں ایک چھڑی تھی، آپﷺ نے وہ چھڑی ان کے سینہ پر مارکر فرمایا: ’’اے سواد! صف کے برابر کھڑے ہوؤ‘‘۔ سواد نے عرض کیا: ’’حضور! آپ نے مجھے چھڑی سے مارا ہے اور اللہ تعالی نے آپ کو صفت عدل و انصاف کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے، اب آپ مجھے قصاص دیجئے‘‘۔ حضورﷺ نے اپنے لباس مبارک کو سینۂ اقدس سے علحدہ کرکے فرمایا: ’’اے سواد! اپنا قصاص لے لو‘‘۔ حضرت سواد نے فی الفور اپنا چہرہ حضورﷺ کے سینۂ مبارک پر رکھ کر اس کا بوسہ لے لیا اور عرض کیا: ’’یارسول اللہ! ممکن ہے میں جنگ میں شہید ہو جاؤں، اس لئے میں نے چاہا کہ آخری وقت میرا جسم آپ کے جسم مبارک سے مس ہو جائے‘‘۔ (مدارج النبوۃ)