حبیب سہیل بن سعید العیدروس
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں اور بعد از وصال آپﷺ کے آثار سے برکت حاصل کرنا صحابۂ کرام اور تابعین عظام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی سنت سے ثابت ہے۔ یہ سلسلۂ حصول برکات صرف تاجدار کون و مکاں صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکت تک ہی محدود نہیں رہا، بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اور معیت سے فیضیاب ہونے والے صحابۂ کرام اور پھر ان سے نسبت غلامی قائم رکھنے والے تابعین اور ان کے بعد آج تک آپﷺ کی امت میں جتنے اکابر اولیاء، صالحین، مفسرین، محدثین اور فقہاء گزرے ہیں، ان کے متعلقین ان کے آثار سے برکت حاصل کرتے رہے ہیں۔ قرآن مجید نے بہت سارے مقامات پر ان برکات کے حصول کا ذکر کیا ہے۔ چوں کہ یہاں برکات اولیاء کا ذکر مقصود ہے، اس لئے صرف اسی موضوع کے تحت لکھا جا رہا ہے۔ چنانچہ قرآن مجید حضرت زکریا علیہ السلام اور حضرت مریم علیہا السلام کا واقعہ یوں بیان کرتا ہے کہ حضرت زکریا علیہ السلام نے حضرت مریم علیہا السلام کے حجرے میں جب بے موسم کے پھلوں کو دیکھا تو اسی مقام پر کھڑے ہوکر نماز پڑھی اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی: ’’اسی جگہ زکریا (علیہ السلام) نے اپنے رب سے دعا کی، عرض کیا: میرے رب! مجھے اپنی جناب سے پاکیزہ اولاد عطا فرما، بے شک تو ہی دعا کا سننے والا ہے‘‘۔ (سورۂ آل عمران۔۳۸)
حضرت مریم علیہا السلام ولیہ تھیں اور جس حجرے میں آپ نے سکونت اختیار کر رکھی تھی اور جہاں آپ عبادت کیا کرتی تھیں، وہاں اللہ تعالیٰ نے بے موسم کے پھل ان کیلئے فراہم کیا۔ یہ کرامت دیکھ کر حضرت زکریا علیہ السلام نے نبی ہونے کے باوجود اپنی امت کی ولیہ کے اس مکان کا وسیلہ تبرک اختیار کیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اولیاء و صالحین سے توسل مکانی اختیار کرنا شرک نہیں، اگر ایسا ہوتا تو اللہ تعالیٰ خصوصیت کے ساتھ قرآن پاک میں اس کا ذکر نہ فرماتا۔ اس ارشاد سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ انبیاء اور صالحین کے آثار سے حصول برکت سابقہ امم کا منہاج عقیدت رہا، جس کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے برقرار رکھا اور آپﷺ کے متبعین بھی اسی پر گامزن رہے۔ اس سلسلے میں قرآن مجید حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت ہارون علیہ السلام اور ان کی اولاد کے تبرکات کا ذکر اس طرح فرماتا ہے: ’’اور ان کے نبی نے ان سے فرمایا اس کی سلطنت (کے من جانب اللہ ہونے) کی نشانی یہ ہے کہ تمہارے پاس صندوق آئے گا، اس میں تمہارے رب کی طرف سے سکون قلب کا سامان ہوگا اور کچھ آل موسیٰ اور آل ہارون کے چھوڑے ہوئے تبرکات ہوں گے، اسے فرشتوں نے اُٹھا رکھا ہوگا، اگر تم ایمان والے ہو تو بے شک اس میں تمہارے لئے بڑی نشانی ہے‘‘ (سورۃ البقرہ۔۲۴۸)
اس آیت کی تفسیر میں امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’مؤرخین بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام پر آیت تابوت نازل فرمایا، جس میں سیدنا آدم علیہ السلام کی اولاد میں پیدا ہونے والے انبیاء علیہم السلام کی تصاویر تھیں۔ وہ تابوت اولاد آدم میں وراثتاً منتقل ہوتا ہوا حضرت یعقوب علیہ السلام تک پہنچا۔ پھر یہ بنی اسرائیل کے قبضے میں رہا اور جب کبھی ان کے درمیان کسی مسئلہ پر اختلاف ہوتا تو یہ تابوت کلام کرتا اور فیصلہ سناتا اور جب کبھی وہ کسی جنگ کیلئے جاتے تو اپنے آگے اس تابوت کو رکھتے، جس کے ذریعہ وہ اپنے دشمنوں پر فتح پاتے‘‘۔ (تفسیر الکبیر)
نیز امام بغوی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کریمہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ’’آل سے مراد خود حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام کے برکات ہیں، اس میں تورات کی دو مکمل تختیاں اور کچھ ان تختیوں کے ٹوٹے ہوئے ٹکڑے تھے۔ اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا اور نعلین اور حضرت ہارون علیہ السلام کا عمامہ اور عصاء اور جنت کا کھانا (مَن) جو بنی اسرائیل پر نازل ہوتا تھا، اس کا ٹکڑا بھی شامل تھا‘‘۔ (معالم التنزیل)
اس تفصیل کو بیان کرنے کا مقصود یہ ہے کہ جب بنی اسرائیل کو اپنے انبیاء علیہم السلام کے تبرکات کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے طرح طرح کے دنیوی و اخروی اور ظاہری و باطنی فوائد عطا فرمائے تھے، جس پر قرآن مجید خود شاہد ہے تو امت محمدیہﷺ کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے قلبی نسبت و تعلق اور سچی محبت و ادب کے ذریعہ ظاہری و باطنی تبرکات و فیوضات نصیب کیوں نہ ہوں گے۔ اگر ہم اپنی زندگی میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ذہنی و فکری اور قلبی و روحانی رشتہ قائم کرلیں تو اب بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے الطافِ کریمانہ اور فیضان کے نظارے کرسکتے ہیں۔
مذکورہ واقعہ تو انبیاء کرام اور ان کی آل کے آثار سے برکت کا ثبوت فراہم کرتا ہے، لیکن انتہا تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں کا تعلق جس شے سے ہوتا ہے، وہ شے بھی برکت شعار ہو جاتی ہے، چاہے وہ تعلق جانوروں کو ہی کیوں نہ ہو، وہ بھی بابرکت ہو جاتے ہیں۔اسی طرح کا ایک واقعہ تاریخ کے اوراق میں احادیث مبارکہ کے حوالے سے حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی سے منسوب کنویں کے بارے میں ملتا ہے۔ حضرت صالح علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے معجزہ کے طورپر اونٹنی عطا فرمائی تھی، لہذا اس کے مبارک اور بابرکت ہونے میں شک کی کوئی گنجائش نہیں۔ لیکن یہ بات صرف یہیں پر ختم نہیں ہوئی، بلکہ وہ اونٹنی جس کنویں سے پانی پیتی تھی، اس کو بھی اس کی نسبت سے بابرکت بنادیا گیا۔
واقعہ یوں ہے کہ حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی جس کنویں سے پانی پیتی تھی، پورا ایک دن وہ کنواں اس اونٹنی کے پینے کے لئے خاص تھا۔ قوم صالح علیہ السلام کو یہ بات ناگوار گزری اور انھوں نے حضرت صالح ؑ کی طرف سے عذاب الہٰی کی وعید کے باوجود اس اونٹنی کو ذبح کرڈالا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا عذاب ان پر نازل ہوا اور پوری قوم ہلاک ہو گئی۔
غزوۂ تبوک کے موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابۂ کرام کے ہمراہ جب اس مقام سے گزر ہوا تو اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو اس مقام سے آگاہ فرمادیا اور آپﷺ نے اپنے صحابۂ کرام کو اس وادی سے تیزی کے ساتھ گزرنے کا حکم دیا اور تباہ شدہ قوم کے کنویں سے پانی پینے سے منع فرمایا اور اس سے آٹا گوندھنے اور برتن دھونے سے بھی منع فرمایا، بلکہ گوندھا ہوا آٹا اور جمع کیا ہوا پانی پھینکنے کا حکم دیا۔ اس کی بجائے انھیں اس مبارک کنویں کا پانی استعمال کرنے کی ترغیب دی، جس سے حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی پانی پیا کرتی تھی۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ’’لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ثمود کی سرزمین حجر میں اُترے، اس کے کنووں سے پانی نکالا اور اس سے آٹا گوندھا۔ انھیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اس وادی کے کنویں سے جو پانی نکالا گیا ہے، اسے پھینک دو اور گوندھا ہوا آٹا اونٹوں کو کھلادو۔ آپﷺ نے صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو حکم دیا کہ وہ اس (مبارک) کنویں سے پانی لیں، جس پر حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی آتی تھی‘‘۔ (صحیح بخاری و مسلم)
امام قرطبیؒنے اس واقعہ کی تشریح میں فرمایا کہ ’’حضور اکرم ﷺ کا یہ ارشاد فرمانا کہ حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کے کنویں سے پانے لو، انبیاء و صالحین کے آثار سے تبرک حاصل کرنے پر دلیل ہے، اگرچہ زمانے گزر چکے ہوں اور ان کے مبارک آثار آنکھوں سے اوجھل ہو گئے ہوں‘‘ (تفسیر الجامع لاحکام القرآن) اسی حدیث کی تشریح میں امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’ان میں ظالموں کے منحوس کنووں سے اجتناب اور صالحین کے مبارک کنووں سے برکت حاصل کرنا مراد ہے‘‘۔ (شرح صحیح مسلم)حضرت امام نووی کی یہ تشریح دراصل اسلاف صالحین کے صحیح عقیدہ کی ترجمان ہے کہ کس طرح ہمارے اسلاف اپنے صالحین اور ان کے آثار سے برکت حاصل کرتے تھے، یعنی بعض مقامات بھی بابرکت ہوتے ہیں اور ان کا مبارک ہونا کسی نیک بندے یا کسی شعائر اللہ کی نسبت کے سبب ہوتا ہے۔ مذکورہ حدیث پاک سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جس طرح بندگانِ خدا کی نسبت سے کوئی جگہ مبارک ہو سکتی ہے تو اس کے برعکس ظالم اور نافرمان قوم کی وجہ سے کوئی خطہ منحوس بھی ہوسکتا ہے، یعنی جس طرح مبارک مقامات سے تبرک حاصل کرنا درست ہے، اسی طرح جس مقام پر عذاب الہٰی کا نزول ہوا ہو، وہاں غضب الہٰی سے پناہ مانگنا بھی سنت نبوی ﷺ سے ثابت ہے۔
…