اسلامی اخلاق میں ’حیاء‘ کی نمایاں حیثیت

اگر ہم اسلام کے اخلاقی نظام کا جائزہ لیں تو کئی باتیں ہمارے سامنے آتی ہیں۔ مثلاً
(۱) ایک یہ کہ اخلاق کی تعلیم، نبوت کی بنیادی تعلیمات میں شامل ہے، جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مجھے اخلاقِ حسنہ کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہے‘‘۔
(۲) دوسرے یہ کہ اخلاق ہی وہ چیز ہے، جس سے انسان اور حیوان میں فرق قائم ہوتا ہے۔ انسان بیک وقت دو زندگیاں گزارتا ہے، طبعی زندگی اور اخلاقی زندگی، جب کہ حیوان صرف ایک طبعی زندگی گزارتا ہے، اخلاقی زندگی سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔
(۳) تیسرے یہ کہ اخلاق ہی سے آدمی کو شرفِ انسانیت حاصل ہوتا ہے۔ اگر اخلاق نہ ہوں تو آدمی، حضرت آدم علیہ السلام کی نسبت سے آدمی تو رہتا ہے، لیکن انسان نہیں بنتا۔
(۴) چوتھے یہ کہ اسلام کے نظامِ اخلاق کے حوالے سے قرآن و حدیث میں اخلاقِ حسنہ اور اخلاقِ سیئہ کی ایک طویل فہرست ہمیں ملتی ہے۔
(۵) پانچویں یہ کہ ہر اچھے اخلاق میں ہمیں یہ صلاحیت بھی نظر آتی ہے کہ وہ ایک یا ایک سے زائد بُرے اخلاق کا سدباب کرتا ہے۔
واضح رہے کہ اخلاقِ حسنہ میں ’’حیاء‘‘ ہی ہمیں ایک ایسا اخلاق نظر آتا ہے، جس کی تاثیر ہمہ گیر ہے۔ حیاء میں یہ صلاحیت بدرجۂ اتم موجود ہے کہ یہ تمام بُرے اخلاق کو روک سکتی ہے۔ حیاء ہی انسان کو سارے فواحش و منکرات سے بچاتی ہے۔ یہ اسلامی اخلاق میں نمایاں حیثیت رکھتی ہے، یہی وجہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہر دین و مذہب کا کوئی نمایاں اخلاق ہوتا ہے اور دین اسلام کا نمایاں اخلاق حیاء ہے‘‘ (مؤطا امام مالک) حیاء ایک فطری وصف ہے، ہر شخص فطرۃً اس سے متصف ہوتا ہے اور تعمیر سیرت میں اس کا اہم کردار ہے۔
اُردو میں حیاء کے مفہوم کو بڑا محدود کردیا گیا ہے۔ فواحش و منکرات سے بچنے اور ان سے پرہیز کرنے کو ہی حیاء اور اس کا تقاضا سمجھا جاتا ہے، لیکن اسلامی لٹریچر میں اس کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ ’’حیاء‘‘ طبیعت انسانی کی اس کیفیت کا نام ہے، جس سے طبیعت ہر نامناسب بات اور ناپسندیدہ کام سے تکدر محسوس کرکے اس کا انکار کردیتی ہے اور اس کے ارتکاب سے اذیت محسوس کرتی ہے۔ حیاء صرف مخلوق ہی سے نہیں کی جاتی، خالق سے بھی کی جاتی ہے، بلکہ خالق ہی اس بات کا سب سے زیادہ مستحق ہے کہ اس سے حیاء کی جائے۔ اس کے منہیات سے احتراز کیا جائے، اس کی معصیت اور نافرمانی سے پرہیز کیا جائے اور کوئی کام ایسا نہ کیا جائے، جو اس کے حکم اور مرضی کے خلاف ہو۔ بندوں کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ اس کا کہیں زیادہ مستحق ہے کہ اس سے حیاء کی جائے۔

یہاں ایک بات اور سمجھ لیجئے کہ حیاء صرف بندہ ہی نہیں کرتا، اللہ تعالیٰ بھی حیاء کرتا ہے اور حق تعالیٰ کی حیاء یہ ہے کہ اس کو اپنی شانِ کریمی کے خلاف کرنے سے حیاء آتی ہے۔ مثلاً حدیث شریف میں آتا ہے کہ جب بندہ اس کے آگے دست سُوال دراز کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کو اس بات سے شرم آتی ہے کہ اس کو خالی لوٹادے، کیونکہ وہ کریم ہے اور سائل کو محروم رکھنا اس کی شانِ کریمی کے خلاف ہے، اس لئے وہ اپنے در سے سائل کو محروم نہیں لوٹاتا، اس کی دعا کو قبول فرماتا ہے اور اس کی مراد پوری کردیتا ہے۔ اسی طرح ایک حدیث میں آتا ہے کہ جب کوئی گنہگار بندہ اس دنیا سے چلا جاتا ہے، جو سزا اور عذاب کا مستحق ہوچکا ہو، لوگ اس کے جنازہ میں شریک ہوتے ہیں اور اس کے لئے دعائے مغفرت کرتے ہیں تو حق تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس بندے کو عذاب دیتے ہوئے مجھے شرم آتی ہے کہ میرے بندے تو اس کے لئے مغفرت مانگ رہے ہیں اور میں اس کو عذاب دوں، لہذا میں اس کو بخش دیتا ہوں۔ اسی طرح ایک حدیث شریف میں یہ بھی آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کسی بوڑھے کو جس کے بال سفید ہوچکے ہوں، عذاب دیتے ہوئے مجھے حیاء آتی ہے، چنانچہ میں اس کو معاف کردیتا ہوں۔

سبحان اللہ! کیا شان ہے ہمارے مولائے کریم کی۔ ہم گناہ کرتے ہوئے نہیں شرماتے اور وہ سزا دیتے ہوئے شرماتا ہے۔ اس کی شان کریمی کے صدقے، اس کی شان غفاری کے نثار۔ غور کیجئے کہ ہم کیا کر رہے ہیں اور وہ ہم سے کیا معاملہ کر رہا ہے۔ ہم گناہ کئے چلے جا رہے ہیں اور وہ پردے پر پردہ ڈالتا جا رہا ہے۔ اس کی شانِ ستاری کے قربان! وہ کیسا ستار العیوب ہے۔
سابق انبیاء کرام کی تعلیمات امتدادِ زمانہ کی وجہ سے اگرچہ محفوظ نہیں رہیں، لیکن کچھ باتیں ضرب المثل کی شکل میں زبان زد خاص و عام ہیں۔ ان میں سے ایک مقولہ کی روایت بخاری شریف میں بھی موجود ہے۔ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگلی نبوت کی باتوں سے لوگوں نے جو کچھ پایا ہے، ان میں سے ایک مقولہ یہ بھی ہے کہ جب تم میں شرم و حیاء باقی نہ ہو تو پھر جو چاہو کرو‘‘۔ اس مقولہ سے یہ مفہوم مترشح ہوتا ہے کہ حیاء ضمیر کی زندگی کا نام ہے، کیونکہ برائی پر نادم و شرمندہ ہونا، فواحش و منکرات سے شرمانا ضمیر کی زندگی کی علامت ہے، لیکن جب ضمیر مر جاتا ہے تو پھر آدمی کسی چیز سے نہیں شرماتا۔ بے حیاء ہو جاتا ہے، اس کی حیاء ختم ہو جاتی ہے، آنکھوں میں شرم باقی نہیں رہتی، یہاں تک کہ گناہ، معصیت اور برائی پر وہ ڈھیٹ ہو جاتا ہے، جب کہ شرم و حیاء کی وجہ سے آدمی برائی کے ارتکاب سے شرماتا ہے اور اس سے بچتا بھی ہے۔ لیکن کسی محرک کی وجہ سے اگر برائی کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے تو اس کے بعد اس پر شرمندہ ہوتا ہے، نادم ہوتا ہے اور اسی ندامت و شرمساری کی وجہ سے لائق معافی بھی ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر کوئی ارتکابِ گناہ سے پہلے شرماتا نہ ہو اور ارتکاب گناہ کے بعد شرمندہ بھی نہ ہو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کا ضمیر مرچکا ہے اور اس میں اخلاقی حس باقی نہیں رہتی۔ (اقتباس)