اسرائیل کے ہاتھوں 219 فلسطینی بچوں کی شہادت پر شہر کے معصوم بچے بھی پریشان

حیدرآباد ۔ 28 ۔ جولائی : فلسطینیوں پر اسرائیلی فوج کی وحشیانہ کارروائی کی ساری دنیا میں مذمت کی جارہی ہے ۔ 8 جولائی سے اسرائیل نے غزہ میں نہتے فلسطینیوں پر فضائی حملوں کا سلسلہ شروع کیا تھا اور پھر عالمی برادری بالخصوص اقوام متحدہ و مسلم ممالک کی مجرمانہ خاموشی کے نتیجہ میں زمینی کارروائی بھی شروع کی جس میں اب تک 1030 سے زائد فلسطینی جاں بحق ہوئے ہیں ۔ شہداء میں 219 بچے اور 117 خواتین شامل ہیں ۔ اسرائیل نے اگرچہ حماس کے راکٹ حملوں کا بہانہ بناتے ہوئے مجاہدین کے اس گروپ کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی خاطر فضائی و زمینی حملے کئے لیکن اس کے حملوں میں 800 سے زائد عام فلسطینی جاں بحق ہوئے ہیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ صیہونی درندے فلسطینی بچوں کی جان بوجھ کر نسل کشی کررہے ہیں تاکہ مستقبل میں فلسطینی جانبازوں کی وہ فوج تیار نہ ہوسکے جو قبلہ اول بیت المقدس کی حفاظت کے لیے سر پر کفن باندھے اسرائیلی بموں ، توپوں ، دبابوں اور مزائیلوں کے سامنے سپر ہو کر ایک معمولی غلیل سے اس کے غرور و تکبر کے قلعہ کو چکنا چور کردیں ۔ قارئین ! اسرائیل کے خلاف ہمارے شہر میں زبردست برہمی پائی جاتی ہے ۔ امیر و غریب اور متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے مسلمان اسرائیلی اشیاء کا بائیکاٹ کررہے ہیں ۔ لوگ پیپسی ، کوکاکولہ ، اسپرائٹ جیسے مشروبات پینے سے گریز کررہے ہیں ۔ نیسلے دودھ اور دہی کی خریدی سے گریز کیا جارہا ہے ۔ راقم الحروف نے کئی کمسن طلبہ سے اسرائیلی مظالم اور مظلوم فلسطینیوں کے بارے میں دریافت کیا اور یہ جاننا چاہا کہ آخر ہمارے چھوٹے بچے جام شہادت نوش کررہے فلسطینی بچوں کے بارے میں کیا احساسات رکھتے ہیں ۔ ملک پیٹ کے رہنے والے چوتھی جماعت کے طالب علم 10 سالہ فواد نے بتایا کہ انہوںنے چھوٹے چھوٹے فلسطینی بچوں کی درد ناک تصاویر اپنے خالہ زاد بھائی کے ٹیابلیٹ پر دیکھ کر وہ بہت پریشان ہوئے اس بچے کا کہنا تھا کہ اتنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو یہ لوگ کیسے مار رہے ہیں ۔ فواد کے والد نے بتایا کہ معصوم اسرائیلی بچوں کی نعشوں کی تصاویر دیکھ کر ان کا بیٹا رات بھر سو نہ سکا ۔ ناگاباؤلی کے رہنے والے 11 سالہ طالب علم کاشف نے جو کمپیوٹر میں کافی ماہر ہیں اپنے ٹیابلیٹ پر اسرائیلی مظالم کی تصاویر اور ویڈیوز ڈاؤن لوڈ کئے ہیں ۔ انہوں نے بتایا کہ اب بچے بڑے لوگوں سے کہیں زیادہ بہتر انداز میں موبائیل فون اور کمپیوٹرس آپریٹ کرتے ہیں وہ انٹر نیٹ اور ٹی وی کے ذریعہ فلسطینی بچوں کے مارے جانے کی خبریں دیکھ اور سن رہے ہیں ۔ کاشف اور فواد نے بتایا کہ ہم یہاں عید کی تیاریاں کررہے ہیں خوشیاں منا رہے ہیں اور وہاں غزہ میں بچے مر رہے ہیں زخموں سے تڑپ رہے ہیں ۔ ہمیں ان بچوں کی باتیں سن کر کوئی تعجب بھی نہیں ہوا کیوں کہ حیدرآباد کے شہری ہر مظلوم سے محبت رکھتے ہیں ۔ غزہ ہو یا عراق افغانستان ہو یا یمن اور صومالیہ جہاں کہیں تباہی و بربادی ہوتی ہے مسلمانوں کی ہر تکلیف و درد میں حیدرآبادیوں کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوجاتے ہیں ۔ بارگاہ رب العزت میں دعاؤں کے لیے ان کے ہاتھ اٹھ جاتے ہیں ۔ ہم نے شہر کے ایک مال میں خریداری کے دوران ایک ایسا منظر بھی دیکھا جہاں ایک 5 تا 6 سالہ لڑکا اپنے ماں باپ کے ہاتھ سے پیپسی کا بوتل لیے یہ کہتے ہوئے اسے کاونٹر میں واپس رکھ رہا تھا کہ یہ تو اسرائیل کا ہے ۔ ہمارے شہر میں فلسطینیوں کے بارے جو تڑپ پائی جاتی ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک گھر میں اسرائیلی درندگی کی بات ہورہی تھی دوران گفتگو گھر کے کسی رکن نے کہا ہم یہاں عید کی تیاریاں کررہے ہیں ۔ اپنے بچوں کے لیے کپڑے خرید رہے ہیں اور غزہ میں فلسطینی اپنے بچوں کے کفن خرید رہے ہیں ۔ بڑوں کی اس گفتگو کو جنید نامی یہ لڑکا سنتا رہا اور درمیان میں اس نے کہا ’ اچھا ہے فلسطینی کفن خرید رہے ہیں اس سے یہودیوں کو سبق سکھایاجائے گا ‘ ۔ اس معصوم لڑکے کی بات سن کر سب حیران رہ گئے اور دریافت کیا کہ آیا تمہیں کفن معلوم ہے ؟ اس نے بڑی معصومیت سے جواب دیا ہاں بندوق اور چاقو کو کفن کہتے ہیں ۔ اس کی ان باتوں کو سن کر سننے والوں کو محسوس ہوا کہ یہ چھوٹا سا لڑکا بھی فلسطینی بچوں کی موت پر برہم ہے ۔ فلسطینی بچوں پر اسرائیلی بربریت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دوسرا انتفاضہ شروع ہونے کے بعد سے سال 2000 سے اپریل 2012 تک اسرائیل نے 1518 فلسطینی بچوں کا قتل کیا ۔ اس مدت کے دوران 6000 بچے زخمی ہوئے ۔ جون 2013 کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ اسرائیل 13 برسوں سے ہر تین دن میں ایک بچے کو قتل کررہا ہے ۔ جب کہ 8 جولائی سے اب تک 1030 سے زائد جاں بحق فلسطینیوں میں 219 بچے اور 117 خواتین ، شامل ہیں ۔ مہلوکین میں 800 عام شہری ہیں ان میں سے 481 کی ان کے گھروں میں شہادت ہوئی ۔ 4382 زخمیوں میں 1220 بچے اور 879 خواتین شامل ہیں ۔ اسرائیلی حملوں میں 61 اسکولس ، 88 مساجد شہید ہوئے ۔ بہر حال ہمیں اپنے فلسطینی بھائیوں سے اظہار یگانگت کے طور پر عید سادگی سے منانی چاہئے ۔ یہ اچھی بات ہے کہ سارے شہر میں ایسے بیانرس ہیں جن پر اسرائیل کی مذمت کی گئی ہے ۔۔