اسرائیل کے ناپاک عزائم

چاہے جتنے چراغ گُل کردو
اس کے گھر روشنی تو ہوگی
اسرائیل کے ناپاک عزائم
یہودی مملکت اسرائیل نے مسلمانوں کے قبلہ اول مسجد اقصی کی تقسیم کا ناپاک منصوبہ بنالیا ہے ۔ اس منصوبہ پر عمل آوری کیلئے ایک مسودہ قانو ن تیار کرلیا گیا ہے اور اس کو آئندہ چند دنوں میں اسرائیل کی سینیٹ میں پیش کرکے منظوری حاصل کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ویسے تو اسرائیل کی جانب سے وقفہ وقفہ سے مختلف قسم کی شر انگیزیاں کی جاتی ہیں اور اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کیلئے بہانے تلاش کئے جاتے ہیں ۔ کبھی نوآبادیات کی تعمیر کے ذریعہ شر انگیزی کی جاتی ہے تو کبھی فلسطینی مسلمانوں کو مسجد میں نمازکی ادائیگی سے روکا جاتا ہے ۔ کبھی یہودی افواج یہاں گھس آتی ہیں اور وہاں جمع ہونے والے مسلمانوں کو احتجاجیوں کا نام دے کر انہیں نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ کبھی فلسطینیوں کا عرصہ حیات تنگ کرنے کے مختلف حیلے بہانے اختیار کئے جاتے ہیں۔ ایسے میں جب فلسطینی عوام کی جانب سے احتجاج کیا جاتا ہے تو اسے کچلنے کے مختلف صیہونی طریقے اختیار کئے جاتے ہیں۔ اب یہودی مملکت نے عالم اسلام کی مسلسل خاموشی کو دیکھتے ہوئے مسجد اقصی کی تقسیم کردینے کا ایک ایسا ناپاک منصوبہ تیار کیا ہے جس کو عالم اسلام کسی بھی قیمت پر قبول نہیں کرسکتا ۔ مسجد اقصی کی مسلمانوں کیلئے انتہائی اہمیت ہے اور اس کی تقسیم کو کسی بھی قیمت پر برداشت نہیں کیا جاسکتا ۔ یہودی مملکت نے جو مسودہ قانون تیار کیا ہے اس کے مطابق مسجد کے دو حصے کرتے ہوئے ایک حصے میں یہودیوں کو بھی عبادت کا مساوی حق دینے کی بات کہی گئی ہے ۔ علاوہ ازیں اس مسودہ قانون کے ذریعہ مسجد اقصی میں مسلمانوں اور فلسطینیوں کی جانب سے احتجاج پر پابندی عائد کرنے کی گنجائش رکھی جا رہی ہے ۔ یہ فلسطینیوں کی زمین کی طرح ان کی مذہبی آزادی کو بھی تلف کرلینے کی ایک ایسی کوشش ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے ۔ اس ناپاک منصوبہ کی نہ صرف مذمت کی جانی چاہئے بلکہ اس کی شدید مخالفت کرتے ہوئے اسرائیل کو اس کی تکمیل کی کوششوں سے روکنے کی بھی شدید ضرورت ہے ۔ اگر عالم اسلام نے اس تعلق سے آواز بلند نہیں کی تو اسرائیل کو اپنے عزائم کی تکمیل کا موقع مل جائے گا ۔
اسرائیل کی ہر طرح کی غاصبانہ اور جارحانہ کوششوں اور اس کے ناپاک عزائم کے تعلق سے عالم اسلام نے اب تک جو خاموشی احتیار کی ہے اس کے نتیجہ میں اسرائیل کے عزائم بڑھ گئے ہیں اور وہ اب مسجد اقصی کی تقسیم جیسے منصوبے بھی بنانے لگا ہے ۔ علاوہ ازیں امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک بھی مسلسل اسرائیل کی اندھی تائید میں جٹے ہوئے ہیں اور وہ فلسطینیوں کو ان کے جائزا ور منطقی حقوق کیلئے بھی آواز اٹھانے کو تیار نہیں ہیں بلکہ وہ اسرائیل کی جارحیت اور فسطائیت کا جواز تلاش کرنے اور اسے اپنے مظالم میں اضافہ کرنے کا موقع فراہم کرتے رہتے ہیں۔ اسرائیل کو اسی طرح کے حالات کی ضرورت رہتی ہے اور مغربی ممالک ‘ اقوام متحدہ اور اسلامی ممالک اسے یہ حالات فراہم کر رہے ہیں جس کے نتیجہ میں وہ اپنے عزائم کو مرحلہ وار انداز میں مکمل کرنے میں جٹ گیا ہے ۔ عالم اسلام کو اسرائیل کی جارحیت اور اس کے ناپاک عزائم کے خلاف آواز بلند کرنے کی ہمت نہیں ہوتی اور کچھ ممالک تو اس غیر قانونی اور ناجائز مملکت سے سفارتی تعلقات استوار کرنے میں بھی مصروف ہوگئے ہیں۔ انہیں نہتے فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم نظر نہیں آتے اور وہ اسرائیل کے حقوق کی بات کرنے کو اپنے لئے بہتر سمجھتے ہیں۔ یہ ایسا طرز عمل ہے جو اسرائیل کے عزائم اور منصوبوں کی طرح قابل قبول نہیں ہوسکتا اور اس میں تبدیلی کی ضرورت ہے تاکہ اسرائیل جیسی صیہونی مملکت کو اس کے عزائم سے باز رکھا جاسکے ۔ جب تک ایسا نہیں کیا جاتا اس وقت تک عالم اسلام اپنی ذمہ داریوں کو پورا نہیں کرسکتا ۔
اب جبکہ اسرائیل نے انتہائی ناپاک منصوبہ بنایا ہے اور مسجد اقصی کو تقسیم کرتے ہوئے وہاں یہودیوں کو عبادت کا حق دینے کی کوشش کرنے لگا ہے تو نہ صرف عالم اسلام بلکہ ساری دنیا کو اس کے خلاف آواز اٹھانے کی ضرورت ہے ۔ امریکہ اور اس کے حواری ممالک اور پھر اقوام متحدہ کو اس معاملہ میں خاموشی اختیار کرنے یا اسرائیل کے منصوبوں کا جواز تلاش کرنے کی کوشش کی بجائے اسرائیل کو اس کے منصوبوں اور عزائم سے روکنے کیلئے پہل کرنی چاہئے ۔ اسلامی ممالک کو چاہئے کہ وہ خاموشی اختیار کرنے کی بجائے ایک پریشر گروپ تشکیل دیں اورمختلف بین الاقوامی فورمس اور تنظیموں میں احتجاج درج کرواتے ہوئے دوسرے ممالک کو بھی اپنا ہمنوا بنانے کی کوشش کریں اور رائے عامہ ہموار کرتے ہوئے اسرائیل کو اس کے عزائم سے روکا جائے ۔ ساری دنیا کو یہ احساس دلانے کی ضرورت ہے کہ مسلمان اور اسلامی ممالک قبلہ اول کے تقدس کو پامال کرنے کی دنیا کی کسی بھی طاقت کو اجازت دینے کو تیار نہیں ہیں ۔