اسرائیل کی نئی بستیاں

آج پھر ان کی تسلی کے جو تیور بدلے
درد سے بڑھ کے ہوئی درد کی مشکل رسوا
اسرائیل کی نئی بستیاں
مسلمانوں کے تمام مسائل کا حل مسلمانوں کی وحدت میں پوشیدہ ہے۔ خاصکر امریکی صدر کی حیثیت سے مخالف مسلم دنیا سوچ رکھنے والے ڈونالڈ ٹرمپ کا اقتدار شروع ہونے کے بعد 57 مسلم ملکوں کی نمائندگی کرنے والی تنظیم او آئی سی کو مسلمانوں میں اتحاد کے لئے کام کرنے کا وقت آگیا ہے۔ اب تک اس کی کوششوں سے کوئی نتائج برآمد نہیں ہوئے بلکہ او آئی سی پر تنقید کرنے والوں نے اس کے وجود کو مسلمانوں کے لئے تقسیم کا باعث بھی قرار دیا ہے۔ اب جبکہ ڈونالڈ ٹرمپ نے حلف لینے کے بعد مشرق وسطیٰ میں یہودی طاقت کے حوصلے بھی بلند ہوگئے ہیں تو آنے والے دنوں میں اسرائیل کے عزائم اور منصوبوں کو ایک بعد دیگر دنیا کے سامنے ظاہر کیا جانے لگے گا جیسا کہ ڈونالڈ ٹرمپ کے صدر بننے میں اسرائیل نے مقبوضہ مشرقی یروشلم میں یہودی بستی کی تعمیر کی منظوری دی ہے۔ مغربی کنارہ میں 2500 نئے بازآبادکار مکانات تعمیر کئے جائیں گے اس کے علاوہ بیت المقدس میں امریکی و اسرائیلی سفارتخانوں کو تل ابیب سے منتقل کیا جائے گا۔ یہ ایسے فیصلے ہیں جن کو روکنے کیلئے پوری قوت لگانے کی ضرورت ہے۔ فلسطینیوں نے اسرائیل کے تازہ منصوبہ کی مذمت کی ہے، اسرائیل ہمیشہ ہی مشرق وسطیٰ میں امن کو درہم برہم کرنے والی کارروائیاں انجام دیتا آرہا ہے۔ اگر اس نے نئے منصوبے کو روبہ عمل لانا شروع کیا اور عالمی طاقتیں اسے روکنے میں ناکام رہیں تو پھر ایک بار ظلم و زیادتیوں اور جارحیت کی نئی داستان شروع ہوگی۔اسرائیل کے خلاف فوری حقیقی اور سنجیدہ موقف اختیار نہیں کیا گیا تو پھر عالمی برادری پر یہ الزام عائد ہوگا کہ اس نے اپنی نااہلی کا ثبوت دے دیا ہے۔ اقوام متحدہ کا وجود صرف موافق جابر طاقتوں تک محدود ہوتا ہے تو پھر اس ادارہ کی افادیت بھی گھٹ جائے گی۔ اسرائیل نے پوری بے شرمی کے ساتھ یہ اعلان کردیا ہے کہ اس نے مغربی کنارہ میں 2500 مکانات تعمیر کرنے کے منصوبے کو منظوری دی ہے۔ وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو نے مغربی کنارہ میں نئی بستیاں بنانے کے منصوبوں کو قطعیت دے کر فلسطینیوں کے ساتھ مستقبل میں امن معاہدہ کے کسی امکان کو بھی ختم کردیا ہے۔ صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ کا انتخاب ہی موافق نوآبادیات قانون سازوں کیلئے حوصلہ افزاء ثابت ہوا ہے، اس پر مزید ظلم یہ ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ نے خود اشارہ دے دیا ہے کہ وہ اسرائیلی نوآبادیات کی تعمیر کیلئے زیادہ سے زیادہ ہمدردی رکھتے ہیں۔ عالمی برادری اب اسرائیلی آبادیوں کو غیر قانونی مانتی ہے اور فلسطین کے ساتھ امن میں بھی رکاوٹ پیدا ہوگئی۔ بیت المقدس میں اسرائیل کے سفارتخانہ کا قیام نئے تشدد کو ہوا دے گا۔ اسرائیلی جارحیت کے خلاف دنیا بھر میں احتجاج تو ہوتا ہے مگر اس کے اثرات کہیں نہیں دکھائی دیتے۔ اہلِ فلسطین سے اپنی گہری وابستگی کا اظہار کرنے والی مسلم دنیا اور مسلم دوست ممالک اسرائیل کی وحشیانہ کارروائیوں کی مذمت ضرورت کرتے ہیں مگر اس کے ظلم کو روکنے والا قدم نہیں اٹھاتے۔ اسرائیل نے اپنے مضبوط حلیف ملک امریکہ کی صدارت ڈونالڈ ٹرمپ کے تفویض ہونے کے بعد مغربی کنارہ میں نئی بستیاں قائم کرنے کا دوسرا اعلان کیا ہے یعنی ایک ہفتہ کی کم مدت میں ہی نئی آبادیاں بسانے کا دوسرا اعلان تشویشناک ہے۔ فلسطینی سرزمین پر یہودی بستیاں اصل میں ایسی نئی یہودی آبادیاں ہیں جو اسرائیل 1967 کی جنگ کے بعد سے مشرق وسطیٰ میں اپنی غیر قانونی تعمیراتی سرگرمیاں جاری رکھنے کی کوشش کررہا ہے، ان علاقوں میں مغربی کنارہ، مشرقی بیت المقدس یا مشرقی یروشلم اور گولان کی پہاڑیاں شامل ہیں۔ فلسطین کو مستقل آزادی دینے سے روکنے اور ایک آزاد ملکیت بننے میں ناکام کرنے کے لئے اسرائیل ایسی بستیوں اور اپنے تعمیراتی منصوبوں کو روبہ عمل لارہا ہے۔ اقوام متحدہ میں اسرائیل کے تعمیراتی اور توسیع پسندانہ منصوبوں کے خلاف کئی قراردادیں منظور کی جاچکی ہیں لیکن ان قراردادوں کو اسرائیل نے خاطر میں نہیں لایا۔ اس کے باوجود عالمی ادارہ خاموش اور بے بس ہے تو یہ فلسطین کے ساتھ ساری امن پسند دنیا کیلئے صدمہ سے کم نہیں۔ اب ڈونالڈ ٹرمپ کے اقتدار میں فلسطین مملکت کے تصور کو ہی ختم کرنے کی گہری سازشیں رچی جائیں گی اور اس پر عمل آوری ہوتی ہے تو مشرق وسطیٰ میں خون ریزی کی نئی تاریخ رقم ہوگی۔ لہذا مسلمانوں میں اتحاد کو یقینی بنانے کیلئے عالم عرب، عرب لیگ، او آئی سی کو ہی اپنے گریباں میں جھانک کر مضبوط پہل کرنے کی ضرورت ہے۔