اسرائیل کیخلاف جنگی جرائم کی تحقیقات

مجرم کا تم کو جلد ہی لگ جائے گا پتہ
تفتیش کے نگر میں دفاتر ہیں ہر طرف
اسرائیل کیخلاف جنگی جرائم کی تحقیقات
اسرائیل کے خلاف جنگی جرائم کے الزامات کی تحقیقات کیلئے ہیگ کی بین الاقوامی عدالت نے جائزہ لینا شروع کیا ہے۔ فلسطینی اتھاریٹی نے حماس کے ساتھ ایک متحدہ حکومت کی مساعی کے ساتھ صدر فلسطین محمود عباس کو اندرون ملک اسرائیل کے خلاف کارروائی کرنے کیلئے دباؤ بڑھتا جارہا تھا۔ اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف اپنے مضبوط مدعا کو پیش کرنے میں کامیابی کے بعد محمود عباس نے ہیگ کی بین الاقومی عدالت سے رجوع ہوکر اسرائیل کے خلاف کارروائی کرنے کی درخواست کی ہے۔ انہوں نے مختلف عالمی اداروں میں فلسطین کا مسئلہ زیرسماعت نہ لانے کے بعد عالمی عدالت کا دروازہ کھٹکٹایا تھا۔ جنگی جرائم کی عالمی عدالت کی ایک خاتون استغاثہ نے فلسطینیوں کے خلاف جنگی جرائم کے ارتکاب کے الزامات کا ابتدائی جائزہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ عالمی عدالت کو اسرائیل کے خلاف تحقیقات کے وقت غیرجانبدارانہ موقف اختیار کرنا ہوگا۔ جب تک آزادانہ طور پر کسی جرم کی تحقیقات نہیں کی جائے، خاطی کے خلاف حتمی نتیجہ پر پہنچنا مشکل ہوجاتا ہے۔ صدر فلسطین محمود عباس نے گزشتہ ماہ اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف جو درخواست دی تھی، اس کی منظوری پر اسرائیل بھی بھڑک اٹھا ہے۔ بین الاقوامی عدالت اور دیگر 16 عالمی معاہدوں و دستاویزات پر دستخط ہونے پر بھی اسرائیل پر شکنجہ کسنے میں عالمی ادارے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ محمود عباس کی ڈپلومیسی کا مطلب دہشت گردی کو ہوا دینے کے بجائے اسرائیل کے خلاف قانونی لڑائی کو ترجیح دینا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ فلسطینی اتھاریٹی نے اسرائیل کے خلاف ہتھیار نہیں اٹھائے ہیں، اگر فلسطینی عوام کی توقع ختم ہوجائے اور ان کی اُمیدیں ٹوٹ جائیں تو وہ ہتھیار اٹھائیں گے اور مشرق وسطی میں دوبارہ انتفاضہ تحریک شروع ہوگی۔ یہ صورتحال دھماکو ہوگی جس کے بعد حالات پر قابو پانا عالمی طاقتوں کے لئے مشکل ہوگا۔ اگر فلسطینی اتھاریٹی نے اسرائیل کی حکومت کے ساتھ سکیورٹی معاملوں میں تعاون کرنا بند کردیا تو حالات سنگین ہوسکتے ہیں۔ فلسطین کے حقوق کو سلب کرنے کی ناپاک کوششوں کے درمیان عالمی عدالت نے اسرائیل کے جنگی جرائم کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا ہے تو اس سمت میں آخر تک کوشش ہونی چاہئے لیکن ہوتا یہ ہے کہ اسرائیل اپنی طاقت اور اثرورسوخ کے ذریعہ عالمی اداروں پر دباؤ ڈال کر فلسطین کے حق میں ہونے والی کوششوں کو ناکام بناتا ہے۔ اسرائیل نے ماضی میں 1993ء کے اوسلو معاہدہ سے لے کر کیمپ ڈیوڈ اور دیگر کئی مواقع پر اپنے عہد کی خلاف ورزی کی ہے۔ اس حقیقت کو پیش نظر رکھنے کے بجائے انصاف کا دَم بھرنے والے عالمی ادارے چشم پوشی اختیار کرلیتے ہیں۔ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان 1948ء کی جنگ سے جاری کشیدگی ان لاکھوں فلسطینیوں کے لئے بے شمار مسائل پیدا کررہی ہے جو بے سروسامانی کے ساتھ پناہ گزین کیمپوں میں مقیم ہیں۔ اسرائیل ۔ فلسطین تنازعہ نے ان پناہ گزینوں کے مسائل میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ یہ فلسطینی پناہ گزین دراصل عرب پناہ گزیں ہیں اور انہیں اپنے وطن واپسی کا حق حاصل ہے۔ اصولی طور پر عالمی اداروں کو ان پناہ گزینوں کی وطن واپسی کو یقینی بنانا ہے لیکن فلسطینی حقوق کی مخالفت کرنے والوں نے فلسطینی پناہ گزینوں کو وطن واپسی کی کوششوں میں رکاوٹیں کھڑی کردی ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ اگر ان فلسطینی پناہ گزینوں کو واپسی کا موقع دیا گیا تو پھر اسرائیل کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔ 1948ء کی جنگ سے متاثرہ پناہ گزینوں کی تعداد 8 ملین بتائی جاتی ہے۔ لیکن اتنی بڑی تعداد میں پناہ گزینوں کو برسوں تک یوں ہی نظرانداز کرنا عالمی انصاف کا گلہ گھونٹ دینے کے مترادف ہوگا۔ کسی بھی علاقہ کے رہنے والے عوام کا یہ جائز حق ہوتا ہے کہ وہ اپنے وطن میں قیام کریں لیکن جب یہ حق ایک ناجائز طاقت کی ہٹ دھرمی کی زد میں آتا ہے تو مسائل جوں کے توں برقرار رہتے ہیں۔ فلسطینیوں کی عزت نفس کا احترام کرنے والوں کو چاہئے کہ وہ عالمی عدالت میں فلسطین کے کیس کو موثر طور پر پیش کریں اور اسرائیل کے خلاف جنگی جرائم کے کیس کی انصاف کے تقاضوں کے ساتھ یکسوئی کی جائے۔
مالیاتی پالیسی اور آربی آئی
ہندوستانی مالیاتی پالیسی کو مضبوط بنانے کی غرض سے مالیاتی اداروں نے حالیہ دنوں میں جو اقدامات کئے ہیں، وہ عوام کی روزمرہ کی معاشرتی زندگی کو کس حد تک بہتر بنائیں گے، یہ آئندہ چند دنوں میں معلوم ہوگا مگر ریزرو بینک آف انڈیا نے 15 جنوری کو جب یہ اعلان کیا کہ وہ شرح سود میں 0.25 فیصد کمی لائے گا۔ فوری طور پر ملک کے بڑے تجارتی گھرانوں نے کوئی حیرت ظاہر نہیں کی۔ گورنر آر بی آئی رگھورام راجن نے اپنی مالیاتی پالیسی کو آئندہ کے مالیاتی اجلاس سے قبل تیار کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ مرکز کی نریندر مودی حکومت اس سال اپنا مرکزی بجٹ معقول طور پر پیش کرے گی۔ آر بی آئی کی شرح سود میں کمی سے ہندوستانی شیر مارکٹ میں تیزی سے اُچھال درج کیا گیا، مگر کب تک برقرار رہے گا، کہنا مشکل ہے لیکن آر بی آئی نے آئندہ سال جنوری تک افراط زر کی شرح کو 6 فیصد تک کردینے کا اعتماد ظاہر کیا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اس وقت ہندوستان کرنسی دیگر کرنسیوں کے مقابل مستحکم ہے لیکن بعض ضروری اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ نے مارکٹ کا رجحان تبدیل کردیا ہے۔ معاشی اصلاحات لانے وزیراعظم نریندر مودی کے وعدے کے حصہ کے طور پر آر بی آئی کی شرح کٹوتی پالیسی کو دیکھا جائے تو اس سے ہندوستان میں صحت مند ترقی کی توقع کی جاسکتی ہے۔ شرح سود میں کمی سے سرمایہ کاری کا نیا مرحلہ شروع ہوگا۔ گورنر آر بی آئی نے اپنی مالیاتی پالیسی کو مزید مضبوط موقف دینے کے لئے چند ٹھوس اقدامات کئے ہیں تو بہتری کی اُمید پیدا ہوگی۔ حکومت کے ’’میک اِن انڈیا‘‘ منصوبے کو بھی تقویت حاصل ہوگی۔