غزہ یکم اگست (سیاست ڈاٹ کام )فلسطینی صدر محمود عباس اسرائیل کے خلاف غزہ کی پٹی میں جنگی جرائم پر مقدمہ چلانے کے لیے حماس سمیت تمام فلسطینی گروپس کی جانب سے تحریری حمایت کے خواہاں ہیں۔ محمود عباس ماضی میں اسرائیل کے خلاف عالمی فوجداری عدالت میں جنگی جرائم کا مقدمہ چلانے میں تامل کا شکار رہے ہیں کیونکہ انھیں یہ خدشہ لاحق رہا ہے کہ ان کے اسرائیل کے ساتھ کشیدہ تعلقات مکمل طور پر معاندانہ ہوسکتے ہیں اور وہ امریکہ کے مدمقابل بھی آ سکتے ہیں۔ لیکن اب غزہ کی پٹی میں گذشتہ چوبیس روز کے دوران اسرائیلی جارحیت میں چودہ سو فلسطینیوں کی شہادت کے بعد ان پر فلسطینی گروپس اور سیاسی حلقوں کی جانب سے اسرائیل کے خلاف ہیگ میں قائم عالمی فوجداری عدالت( آئی سی سی) میں مقدمہ چلانے کے لیے دباؤ بڑھتا جارہا ہے۔ اسرائیلی عہدے داروں کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ اپنے دفاع میں حماس کے راکٹ چھوڑنے کی جگہوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔وہ الٹا حماس پر یہ الزام عاید کررہے ہیں کہ اس کے جنگجو غزہ کے شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کررہے ہیں حالانکہ اسرائیلی فوج غزہ کی پٹی میں بلاتمیز بچوں ،خواتین اور ضعیف العمر افراد کو نشانہ بنا رہی ہے۔
اقوام متحدہ کے عہدے دار صہیونی ریاست کے خوف میں ایسے مبتلا ہیں کہ وہ اس کی ننگی جارحیت اور فلسطینیوں کے راکٹ حملوں کومساوی تصور کررہے ہیں اور اسرائیل کے ساتھ توازن قائم کرنے کے لیے حماس پر بھی جنگی جرائم کے مرتکب ہونے کے الزامات عائد کررہے ہیں۔اسرائیلی فوج کی وحشیانہ بمباری کے نتیجے میں غزہ میں فلسطینیوں کی ہلاکتوں میں اضافے کے بعد اب غرب اردن سے تعلق رکھنے والے سیاسی دھڑے صدر محمود عباس پر یہ دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ صہیونی ریاست کے خلاف عالمی فوجداری عدالت سے رجوع کریں۔ فلسطین کی قانون ساز اسمبلی کے ایک آزاد رکن مصطفیٰ برغوثی کا کہنا ہے کہ ہم اس معاملے میں ایک طویل عرصے سے فلسطینی صدر پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔انھوں نے بتایا کہ گذشتہ منگل کو سیاسی لیڈروں کا اجلاس ہوا تھا اور محمود عباس نے شرکاء سے کہا کہ آئی سی سی سے رجوع کرنے کے لیے ایک اعلامیے پر دستخط کردیں۔اس وقت اجلاس کے تمام شرکاء نے اس پر دستخط کردیے تھے اور اب عدالت سے رجوع کرنے کا حتمی فیصلہ خود صدر محمود عباس ہی کریں گے۔