یہودی مملکت کی معیشت پر تباہ کن اثرات : بائیکاٹ میںمزید شدت پیدا کرنے کی ضرورت
جرمن اور ڈنمارک کے بینکس نے اسرائیلی بینکوں کے ساتھ کام روکدیا۔ امریکہ میں اسرائیلی ماہرین تعلیم سے بھی دوری
حیدرآباد 2 اگسٹ ( سیاست نیوز ) غزہ پر اسرائیل کے وحشیانہ حملوں اور بے قصور و نہتے فلسطینیوں کے قتل عام کے خلاف ساری دنیا میں برہمی پائی جاتی ہے اور اسی برہمی کے باعث خاص طور پر مسلم دنیا میں اسرائیلی اشیا اور مصنوعات کے بائیکاٹ کی اپیلیں کی گئی تھیں۔ ان اپیلوں نے اپنا اثر دکھایا اور بائیکاٹ کے نتیجہ میں اسرائیلی معیشت متاثر ہونے لگی ہے ۔ اسرائیل کے وحشتناک حملوں اور اس کے غاصبانہ عزائم کے خلاف اسرائیلی اشیا کے بائیکاٹ کے نتیجہ میں معیشت کے متاثر ہونے کا خود اسرائیل کے وزیر فینانس نے بھی اعتراف کرلیا ہے ۔ کہا جارہا ہے کہ اس بائیکاٹ کے نتیجہ میںاسرائیلی معیشت پر تباہ کن اثرات ہو رہے ہیں۔ ماہ رمضان المبارک کے موقع پر ساری دنیا میں اسرائیلی کھجور ‘ دودھ اور دیگر اشیا کا بڑے پیمانے پر بائیکاٹ ہو ا تھا ۔ دوسری اشیا کے بائیکاٹ کا بھی سلسلہ ہنوز جاری ہے ۔ مسلمانوں نے ایک دوسرے کو ترغیب دیتے ہوئے عیدالفطر کے موقع پر اسرائیلی دودھ وغیرہ کے استعمال سے گریز کی بھی مہم چلائی تھی جو انتہائی موثر رہی اور یہ تاثر غلط ثابت ہوگیا کہ معمولی اشیا کے بائیکاٹ یا چند افراد کے بائیکاٹ سے اسرائیل کی معیشت متاثر نہیں ہوگی ۔ اب خود اسرائیل یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہوگیا ہے کہ دنیا بھر میں اس کی اشیا کے بائیکاٹ کے اس کی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ تاہم یہ اسرائیل کی ہٹ دھرمی ہے کہ وہ اس نقصان کے باوجود بے قصور اور نہتے فلسطینیوں کو بمباری کا نشانہ بناتے ہوئے عملا ان کی نسل کشی میں مصروف ہے ۔ اب جبکہ ابتدائی کوششوں کے مثبت اثرات مرتب ہونے لگے ہیں تو اقوام عالم اور اور خاص طور پر مسلمانوں اور عالم اسلام کی یہ ذمہ داری ہے کہ اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ میں مزید شدت پیدا کی جائے اور اس کی معیشت کو ممکنہ حد تک متاثر کیا جائے تاکہ صیہونی مملکت مسلمانوں کے احتجاج سے واقف ہوسکے ۔ کہا گیا ہے کہ خود اسرائیلی شہروں میں بھی تجارت میں کمی آگئی ہے اور خرید و فروخت میں 40 فیصد کی گراوٹ آگئی ہے ۔ کہا جارہا ہے کہ مسلمانوں کی جانب سے اشیا کے بائیکاٹ کے نتیجہ میں اسرائیل کی شرح ترقی متاثر ہوگی اور جملہ گھریلو پیداوار کا تناسب بھی متاثر ہوسکتا ہے ۔ بائیکاٹ کے نتیجہ میں اسرائیل کے بجٹ میں مالیاتی خسارہ بڑھ سکتا ہے ۔ معیشت کو دوبارہ ترقی کی راہ پر ڈالنے اور ترقی کی شرح کو بہتر بنانے میں صیہونی مملکت کو ایک طویل وقت درکار ہوسکتا ہے ۔ کہا جارہا ہے کہ اسرائیل پر حماس کے راکٹ حملوں کے نتیجہ میں بھی معیشت متاثر ہو رہی ہے اور بیرونی سرمایہ کار ایسے ملک میں سرمایہ کاری سے گریز کرنے لگے ہیںجہاں راکٹ حملے عام بات ہوتی جا رہی ہے ۔ نہ صرف عالم اسلام میں اسرائیلی اشیا کا بائیکاٹ جاری ہے بلکہ کچھ انصاف پسند اور صاف ذہن رکھنے والے مغربی ممالک بھی اس میں شامل ہوگئے ہیں۔ جرمنی کے سب سے بڑے اور بین الاقوامی بینک Deutsche bank نے اسرائیل کے napoleam bank کے ساتھ کاروبار روک دیا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ یہ بینک فلسطینی سرزمین پر یہودی نوآبادیات کیلئے فنڈنگ کرتا ہے یہ غیر قانونی ہے اس لئے اس کے ساتھ کاروبار نہیں کیا جاسکتا ۔ اس کے علاوہ ڈنمارک کے Danske Bank نے بھی اسرائیلی مالیاتی اداروں کے ساتھ کاروبار روک دیا ہے ۔ اسرائیل کے سنٹرل بینک کا کہنا ہے کہ اگر یہی صورتحال رہی تو پھر اس کی معیشت پر اس کے انتہائی منفی اثرات مرتب ہونے یقینی ہیں۔ امریکہ میں ایک تعلیمی اتحادی ادارہ نے اسرائیلی ماہرین تعلیم کی خدمات کے حصول کو ترک کردیا ہے اور طلبا کی اسرائیلی تعلیمی اداروں میں تعلیم کی حوصلہ افزائی سے بھی گریز کیا جارہا ہے ۔ اس صورتحال میں خاص طور پر مسلمانوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اسرائیلی اشیا کے بائیکاٹ کی مہم میں مزید شدت پیدا کردیں اور خاص طور پر ٹھنڈے مشروبات اور چھوٹے بچوں کے استعمال میں آنے والی اشیا کے تعلق سے عوام میں شعور بیدار کریں۔ ابتدائی کاوشوں سے ہی اسرائیلی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہونے شروع ہوگئے ہیں اور اگر پوری شدت کے ساتھ اس مہم کو آگے بڑھایا جائے اور مزید اسرائیلی مصنوعات کی مہم چلائی جائے تو اس سے بھی یہودی مملکت کی نسل کشی کا شکار ہونے والے فلسطینی عوام سے اظہار یگانگت ہوسکتا ہے ۔