اب کیا کہا جائے! تمام گوشے تو مجھ سے یہی کہتے رہے کہ بائیکاٹ کا کوئی اثر ہونے والا نہیں، مگر حقیقت یہ ہے … اسرائیلی معیشت ابتدائی تین ہفتوں میں ہی 950 ملین ڈالر کھو چکی ہے!!!
تل ابیب ، 2 اگسٹ (سیاست ڈاٹ کام) فلسطینیوں اور بالخصوص غزہ والوں کے خلاف اسرائیل کی جارحانہ روش بلکہ بربریت گزشتہ 7 جولائی سے تادم تحریر جاری ہے اور اس دوران اقوام متحدہ سے لے کر لگ بھگ ساری عالمی برادری نے صیہونی مملکت کو فلسطینیوں پر مظالم ڈھانے سے روکنے کی لفظی کوشش ضرور کی لیکن شاید بنیامین نتن یاہو زیرقیادت اسرائیلی حکومت اپنی فوجی اور معاشی طاقت کے زعم میں ساری دنیا کے دباؤ کے باوجود اپنے جابرانہ حملے جاری رکھی ہوئی ہے۔ ابتداء میں عالمی ذرائع ابلاغ کی مدد سے دنیا پر یہی ظاہر کیا گیا کہ اس ملٹری مہم سے اسرائیلی معیشت متاثر نہیں ہوگی مگر خود اسرائیلی وزیر فینانس یائر لاپڈ نے جارحانہ کارروائی کی شروعات کے ہفتے عشرے بعد ہی متنبہ کردیا کہ اسرائیل کے خلاف بائیکاٹ کی بڑھتی مہمات کے معیشت پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔
تازہ اعداد و شمار کے مطابق اسرائیلی معیشت کو غزہ کے خلاف جارحیت کے دوران 950 ملین امریکی ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے۔ جرمنی کے سب سے بڑے بینک ’ڈوئشے بینک‘ کے اقدام کو بھی اس پس منظر میں نمایاں اہمیت حاصل ہے جس نے اسرائیلی ہاپولیم بینک کو ’’ناپسندیدہ کمپنی‘‘ قرار دیتے ہوئے بلیک لسٹ کردیا کیونکہ یہ بینک مغربی کنارہ میں غیرقانونی یہودی نوآبادیات کیلئے فنڈز فراہم کررہا ہے۔ اسرائیل کے وزیر فینانس لاپڈ نے متنبہ کیا کہ ساری دنیا بشمول امریکہ میں اسرائیل کیلئے ہمدردی اور تحمل تیزی سے مفقود ہورہا ہے۔
وہ گزشتہ دنوں امریکی یہودی تنظیموں کے نمائندہ گروپ سے بات کررہے تھے۔ ’یش اتید‘ پارٹی کے چیرمین لاپڈ نے خبردار کیا کہ اسرائیلی مصنوعات اور اس کے معاشی مفادات کے خلاف بائیکاٹ کی بڑھتی مہمات اسرائیلی معیشت پر کاری ضرب لگائیں گی۔ امریکہ کی سرکردہ اکیڈیمکس یونین ’اے ایس اے‘ نے جب فیصلہ کیا کہ مغربی کنارہ میں غیرقانونی بستیوں کی تائید و حمایت میں کام کرنے والے اسرائیلی ماہرین تعلیم اور تعلیمی اداروں کا بائیکاٹ کیا جائے گا، تو پھر جلد ہی بڑی ولندیزی پنشن کمپنی ’پی جی جی ایم‘ اور ڈنمارک کے ’ڈانسکی بینک‘ نے بھی یہی وجہ بتاتے ہوئے اسرائیلی بینکوں کا بائیکاٹ کردیا۔ ابھی کچھ وقت نہ گزرا تھا کہ خود اسرائیل کے اخبار ’ماریوو‘ کی اطلاع کے بموجب جرمنی کے سب سے بڑے ’ڈوئشے بینک‘ (ڈی بی) نے اسرائیلی ہاپوالیم بینک کو غیرقانونی اسرائیلی نوآبادیات کے سبب ’’ناپسندیدہ کمپنی‘‘ قرار دیتے ہوئے ’بلیک لسٹ‘ میں شامل کرلیا ہے۔ غزہ والوں کی طرف سے جوابی راکٹ حملوں سے خائف قابل لحاظ اسرائیلی ورکرز کام پر رجوع نہیں ہورہے تھے۔
چنانچہ فیکٹریوں میں اُن کیلئے جنگ کے وقتوں کیلئے خاص طور پر تیار کردہ شیلٹرز لگائے گئے جس کے بعد اسرائیلی اخبار ’ہاریز‘ کے مطابق وسطی اسرائیل میں لگ بھگ 30 فیصد ورکرز اپنے کام پر لوٹ آئے ہیں۔ تاہم ان خیموں میں کام کیلئے مناسب ماحول کے فقدان کے باعث اسرائیلی کی پیداواری صلاحیت 40 فیصد تک گھٹ چکی ہے۔ اس اخبار اور اسرائیلی ریڈیو نے نشاندہی کی کہ 70 فیصد اداروں، فیکٹریوں اور کھیتوں نے غزہ کے خلاف جنگ کی 7 جولائی کو شروعات کے بعد سے اپنا کام کاج چھوڑ رکھا ہے۔ اخبار کا تخمینہ ہے کہ اسرائیل نے غزہ پر جارحیت کے ابتدائی تین ہفتوں میں تقریباً 950 ملین ڈالر کھو دیئے ہیں۔ کئی فیکٹری اور فارم مالکین کا مطالبہ ہے کہ اسرائیلی وزارت فینانس ان نقصانات کی پابجائی کرے۔ یہ صورتحال نتن یاہو حکومت کے زوال کا موجب بھی بن سکتی ہے!