استقبالِ رمضان

مولانا مفتی حافظ سید صادق محی الدین فہیم ؔ

رمضان المبارک کی آمد رحمت کی سو غات لا تی ہے، مسلم دنیا میں خوشیو ںاور مسرتوں کے ساتھ اس کا استقبال ہو تا ہے ،استقبال رمضان کے عنوان سے مجالس منعقد ہو تی ہیں ، استقبال دو طرح سے ہو تا ہے ،ایک ظاہری، دوسرے معنوی ،ظاہری استقبال کے اہتمام کا رواج جہاں زیادہ ہو جاتا ہے وہاں سے معنوی استقبال میں کمی آجا تی ہے ، اسی لئے ظاہری استقبال سے زیادہ معنوی استقبال کی اہمیت ہے ، معنوی استقبال ہی در اصل اس کی روح او ر جان ہے ، اسلاف کے ہاں ظاہری استقبال سے زیادہ اسی معنوی استقبال کی روح کا رفر ما تھی ،اس دور ترقی میں باطن سے زیادہ ظاہر کی طرف ہر ایک کی توجہ ہے ، کا میا بی کا راستہ یہی ہے کہ معنوی استقبال کی فکر کی جائے ،اسی فکر کو تازہ کر نے اور باطن کو جلا دینے کی غرض سے سیدنا محمد رسو ل اللہ ﷺ نے شعبان المعظم کے آخری دن ایک بلیغ خطبہ ارشاد فر مایا

جس میں رمضان المبارک اور اس کے مبارک اعمال کی یاددہانی کر وائی گئی ہے ، اس حدیث پاک کے راوی حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ ہیں ، آپ ﷺ نے لو گوں سے خطاب فر ما کر رمضان مبارک کی عظمتوں کا تعارف کروایا ہے ، ارشا فر مایا ’’ائے لوگویہ جو مبارک مہینہ ہمارے درمیان رحمتوں کا پیغام لا رہا ہے وہ بڑا ہی عظمتوں او ر بر کتوں کا ہے ، اس مبارک مہینہ کی عظمت کو سمجھنے کیلئے اتنا کا فی ہے کہ’’ اس میں صرف ایک رات ہی ایسی رکھ دی گئی ہے جو ہزار مہینوں سے زیادہ افضل ہے ، اس مبارک مہینہ کے روزے اللہ سبحانہ نے فرض فرمائے ہیں‘‘، روحانی اعتبار سے روزہ رکھ کر دن کو جب کار آمد بنا لیا گیا ہے

،تو رات بھی ضائع نہیں ہو نی چاہئے ’’اسی لئے اس کی راتوں میں بارگاہ الہی کی حضوری عبدیت و بندگی کے خالص جذبات کے ساتھ قیام یعنی تراویح کے اہتمام کو سنت کا درجہ دیا گیا ہے ‘‘،اس مبارک مہینہ میں اعمال کے ثواب کا کئی گنا اضافہ ہو جانے کی بشارت سناتے ہوئے آپ ﷺ نے فر مایا ۔’’اس مبارک مہینہ میں ایک فر ض کی ادائیگی کرنے والے کو ستّر فرائض انجام دینے کا ثواب عطا فر مایا جائے گا ، اور ایک نفل کا ادا کرلینا یعنی نفل نماز کی ادائیگی ہو یا نفل صدقہ و خیرات اس مبار ک مہینہ میں ایک فرض ادا کرنے کے قائم مقام ہو جائیگا اور فرمایا کہ یہ مہینہ تو صبر کا مہینہ ہے‘‘ ، صبر کہتے ہیں اللہ سبحانہ وتعالی کی رضا حاصل کر نے کیلئے نفس کی خواہشات کا گلاگھونٹا جائے ، اور دین اسلام کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے جو کچھ مصائب و مشکلات گلے کا ہار بنیں ان کو بر داشت کیا جائے، تبھی تو صبر کرنے والوں کیلئے جنت کی خوشخبری ہے ،بندگی کے تقاضوں کی تکمیل کے خصوصی اہتمام کے ساتھ بندگان خدا کی طرف التفات کرنے کی تلقین کی گئی ہے

،فرما یا کہ’’ یہ مہینہ تو دکھوں کو بانٹنے اور دوسروں کے احوال سے باخبر ہو کر ان کی غمخواری کر نے کا مہینہ ہے ‘‘، اللہ سبحانہ و تعالی ہی ہر ایک کے کفیل و کار ساز اور روزی رساں ہیں ، روٹی روزی ہر ایک کی مقدر ہے ،کس کو کتنی دی جائے اس کے ہاں پہلے ہی سے مقدر اور مبنی بر مصلحت ہے ،لیکن ’’یہ مہینہ وہ مبارک مہینہ ہے جس میں اللہ سبحانہ و تعالی ایمان والے بندوں کے رزق و روزی میں اضافہ فرما دیتے ہیں‘‘اس سے مادی رزق میں بھی اضافہ مراد ہو سکتا ہے اور روحانی رزق میں بھی ، مادی رزق و روزی میںاضافہ تو سر کی آنکھوں سے دیکھا جاسکتا ہے، اپنے اور پرائے سب ہی اس کامشاہدہ کر تے ہیں ، افطار و سحر میں کھانے پینے کے جو عمدہ اہتمامات ہو تے ہیں وہ کسی اور مہینہ میں نہیں دیکھے جا تے ، رزق میں لذت و ذائقہ کا احسا س بھی بڑی نعمت ہے جو اللہ کی دین ہے ،اور مہینوں سے زیادہ غذائی ذائقہ و لذت کا احساس سحرا ور خاص طور پر افطار میں بڑھ جاتا ہے ، ان مادی فوائد کے ساتھ روحانی فوائد تو وہ ہیں جو اس مادی عالم میں دیکھے اور محسوس نہیں کئے جا سکتے،’’ ألصوم لی و انا اجزی بہ‘‘ میں اس حقیقت کو سمو یا گیا ہے ، یعنی روزہ تو بس میرے ہی لئے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دینے والا ہوں، جزاء جب حق تعالی دینگے تو بندے اس کے فضل کا کیا اندازہ کر سکتے ہیں ، یوں تو کھانا کھلانا بڑی نیکی ہے، جب چاہے کھلا یا جا ئے اس کی کوئی تخصیص نہیں ،

ہاں مگر رمـضان پاک میں کھلانے کا ثواب تو کچھ اور ہی ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا’’ کسی روزہ دار کو روزہ افطار کروا دینے کا ثواب تو یہ ہے کہ اللہ سبحانہ اس کے گناہو ںکو معاف فر ما دیتے ہیں ، اور جہنم کی آگ سے اس کو نجات کا پروانہ عطا ہو تا ہے ‘‘ اور کمال یہ ہے کہ’’ افطار کرانے والے کو بھی روزہ کا ثواب دیا جا تا ہے ، جب کہ روزہ دار کے روزہ کے ثواب میں کسی طرح کی کوئی کمی بھی نہیں کی جاتی ‘‘ اس فضیلت و ثواب کا بیان سن کر غریب صحابہ اپنی غربت کی وجہ اس عظیم ثواب کی محرومی کے احساس سے بے چین ہو گئے ،اور دل کی تڑپ کے ساتھ’’ عرض پرداز ہوئے یا رسو ل اللہ ہم میں سے ہر کوئی وہ اسباب نہیں رکھتا کہ جس سے وہ کسی روزہ دار کو روزہ افطار کروا سکے‘‘ آپ ﷺ جو ساری انسانیت کے ہمدرد سب پر شفیق و مہر بان لیکن غریبوں اور مسکینوں کے تو بڑے بہی خواہ ان کو چاہنے والے اور ان سے بے پناہ محبت کر نے والے اور خوش حالوں سے زیادہ ان کمزوروں پر خوب نظر رحمت فرمانے والے آقائے دوعالم انسانیت کے غمخوار مسکینوں غریبوں کے تو خاص ماوٰی و ملجاء سید العالمین ﷺ نے ان کے درد کو محسوس کیا اور ان کے احسا س غم کو دور فرما کر ان کے دلوں کو مسرت و شادمانی سے بھر دیا ، اور ان کو تسلی دیتے ہو ئے فر مایا ، کہ’’ حق سبحا نہ و تعالی تو یہ ثواب ان کو عطا فر مائیں گے جو کسی رو زہ دار کو ایک گھونٹ پانی سے یا تھو ڑے سے دودھ سے افطار کرادے ، جن کو حق سبحانہ نے بہت کچھ نوازہ ہے اور وہ کسی روزہ دار کو افطار کراتے ہوئے شکم سیر کر دیں ان کیلئے مزید اجر و ثواب کا وعدہ ہے ، فر مایا کہ جو کوئی روزہ دار کو پیٹ بھر کھانا کھلادے اس کیلئے تو یہ عمل آخرت میں سیرابی کا باعث بنے گا جب کہ تشنہ لبی اپنے عروج پر ہو گی ،حق سبحانہ ان کو نبی رحمت صاحب حوض کو ثر ﷺ کے دست مبارک سے ایسے سیراب کرے گا کہ جنت میں جانے تک اب اسے تشنگی کا احساس نہیں ہو گا ‘‘۔

اس مبارک مہینہ کے تین عشرہ ہیں پہلا عشرہ رحمت کا ،اور درمیانی عشرہ مغفرت کا ،اور تیسرا عشرہ دوزخ سے آزادی کا ہے ،اس مبارک مہینہ کی عظمت کا تعارف کر واتے ہوئے آپ ﷺ نے ارشاد فر مایا کہ اس مبارک مہینہ میں جو اپنے خدام اور ملازمین کے ساتھ سہولت کا معاملہ کرے اور ان کے کاموں میں نرمی و آسانی پیدا کرے تو یہ عمل بھی بہت بڑے اجر و ثواب کا حامل ہے ، حق سبحانہ ایسے بندوں کو معاف فرمادینگے اور دوزخ سے نجات کا پروانہ عطا کریںگے ، اللہ کے نبی سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کے خطبہ مبارک کا یہ ایک مختصر خلاصہ و مفہوم ہے ،جس میں رمضان المبارک کے حقیقی تعارف اور اسکے فضائل کو بڑے ہی مختصر اور جامع انداز میں بیان فرمایا گیا ہے ، جس سے رمـضان المبار ک کی اہمیت اور اس میں کئے جانے والے اعمال کی عظمت کا پتہ چلتا ہے ، اس مبارک خطبہ کے ایک ایک لفظ پر غور کیا جائے تو اعمال رمضان کی حقیقت سمجھ میں آتی ہے ان پر سچے دل سے عمل کر نے کی وجہ حق سبحا نہ و تعالی کی بے نہایت رحمتیں نصیب ہو تی ہیں ، رمضان کی مبارک ساعتوں کی قدر کرنے والے بندے اس کی رحمتوں کے سمندر میں نہا کر نکلتے ہیں ، اور باطن کچھ اتنا اجلا ہو جاتا ہے کہ وہاں اب کوئی کثافت اور کسی طرح کا کوئی میل و کچیل باقی نہیں رہتا ،اس باطنی طہارت و پاکیزگی کو بر قرار رکھ لینا روزہ داروں کا فریضہ ہے ، آنے والے رمضان بلکہ موت تک اس پاکیزگی کی بھر پور حفاظت کریں۔