استعفیٰ دینے کی دھمکی

دستار نوچ ناچ کے احباب لے اُڑے
سَر بچ گیا ہے یہ بھی شرافت میں جائے گا
استعفیٰ دینے کی دھمکی
آر ایس ایس قائدین کی چرب زبانی و من مانی نے وزیراعظم نریندر مودی کو بظاہر مضطرب کردیا ہے، اس لئے انہوں نے اپنی سرپرست تنظیم کے اعلیٰ قائدین سے ملاقات میں اپنی شدید ناراضگی ظاہر کی ہے۔ سنگھ پریوار کو مرکز میں مودی حکومت کے باعث جو حوصلہ ملا ہے۔ اس کے زور پر آئے دن اندھادھند بیانات دے کر سیکولر ہندوستان کو اپنی ذاتی ملکیت متصور کررہے ہیں۔ تبدیلی مذہب کے واقعہ اور دیگر متنازعہ بیانات کے خلاف اپوزیشن پارٹیوں کی مودی حکومت پر ہونے والی تنقیدوں کے درمیان اگر نریندر مودی نے وزیراعظم کی حیثیت سے استعفیٰ دینے کی دھمکی دی ہے تو اس دھمکی میں کتنی صداقت ہے، یہ ان کے عملی اقدام سے ہی ثابت ہوگا یا پھر ملک میں فرقہ پرستوں کی حرکتوں کو باز رکھنے کے مظاہروں سے واضح ہوگا کہ وہ واقعی اپنی حکومت کی امیج کو خراب کرنے والوں کو ہرگز نہیں بخشیں گے۔ گزشتہ چند ماہ سے مودی حکومت کو اپنی کارکردگی کے مظاہروں سے زیادہ بدنامی کی فضاء میں قلا بازیاں کرتے دیکھا گیا ہے۔ ایک فرقہ پرست پارٹی یا تنظیم کے تعلق سے ہمیشہ تنازعات ہی گشت کرتے رہتے ہیں۔ بی جے پی اور اس کی حلیف پارٹیاں و تنظیموں کا ایک نکاتی ایجنڈہ سے یہ ظاہر ہورہا ہے کہ ہندوستان کی اقلیتیں یہ ملک چھوڑ دیں تاکہ وہ اپنا منصوبہ روبہ عمل لاکر راج کرسکیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا بی جے پی اور اس کی حلیف تنظیمیں، اقلیتوں کے بغیر اس ملک میں سانس لینے اور اپنے سیاسی ناپاک عزائم کو بروئے کار لانے میں کامیاب ہوں گے۔ ہرگز نہیں کیوں کہ اقلیتوں کے وجود سے ہی انہیں ہم خیال عوام اور رائے دہندوں کو ورغلا کر اقتدار تک پہونچنے میں کامیابی ملی ہے۔ اگر اقلیتیں نہ ہوتیں تو پھر بی جے پی اور فرقہ پرستوں کے وجود کا تصور ہی نہیں ہوتا۔ کسی ایک فرد کو نشانہ بناکر ہی دوسری طاقت اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب ہوتی ہے۔ اس وقت ملک کی فضاء کو زعفرانی و فرقہ پرستانہ رنگ سے آلودہ کردیا گیا ہے۔ اس لئے عارضی عوامی حمایت کی زور پر اقتدار حاصل کیا گیا۔ حقیقت میں ہندوستان کا رائے دہندہ فرقہ پرستوں کو ہرگز پسند نہیں کرتا۔ یہ ایک مختصر وقفہ کے لئے ان سازشوں یا چالاک سیاست دانوں کے جھوٹے وعدوں کا شکار ہوتے ہیں۔ ہندوستانیوں کو مذہب یا کسی اور عنوان سے بلیک میل کیا جارہا ہے تو یہ حربے زیادہ دیر تک یا ہمیشہ کامیاب نہیں ہوتے۔ مودی اور ان کی ٹیم اب اس آخری سطح کو پہونچ گئی ہے جہاں سے واپسی ہوئی تو پھر دوبارہ بلندی تک پہونچنا مشکل ہوجائے گا۔ سیکولر ملک کا رائے دہندہ ایک آزمائش موقع دیا ہے اور اس آزمائشی لمحہ میں مودی کو اپنی سیاسی بقاء کی فکر لاحق ہے۔ اس لئے انہوں نے آر ایس ایس یا اس سے وابستہ تنظیموں کی من مانی سے حکومت کو ہونے والے نقصان کا بروقت احساس ظاہر کیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آر ایس ایس قائدین کے خلاف ان کا غصہ و ناراضگی دیرپا نہ ہو اور ہوسکتا ہے کہ انہیں اتنا وقت نہ ملے کہ وہ کوئی طویل پالیسی بناکر اپنی حکومت کی امیج کو درست کرسکیں۔ اس وقت ان کو ناراض کرنے والی آر ایس ایس کے نفرت پھیلانے والے عناصر مزید زہر اُگل کر فضاء کو زہر آلود کردیں گے، لہذا وزیراعظم کی حیثیت سے نریندر مودی کو اپنی حکومت پر گرفت مضبوط کرکے سیکولر ہندوستان اور دستور و جمہوری اُصولوں پر سختی سے عمل کرنا ہوگا۔ بی جے پی کی سرپرست تنظیم یا محاذی ٹولوں کی سیاسی انتہا پسندی، مذہبی منافرت نے ملک کے عوام کو اپنے مستقبل پر فکر کرنے کا لمحہ عطا کیا ہے۔ ملک کا سیاسی و مذہبی منظر نامہ افسوسناک ہوتا جارہا ہے۔ وی ایچ پی، بجرنگ دل اور دیگر فرقہ پرستوں کی جانب سے جو صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، اس سے نمٹنے کیلئے مودی کو اپنی سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اگرچیکہ 6 ماہ کے اندر ان کی حکومت کیلئے بہت سے مسائل پیدا نہیں ہوئے ہیں لیکن ان کی لاپرواہی یا رونما ہونے والے واقعات کو نظرانداز کرنے سے مسائل کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوگا جس کے بعد حکومت کی گرفت ڈھیلی پڑجائے گی۔ فرقہ پرستوں کو ان کی حالت پر چھوڑ دیا گیا تو بھی ملک کا جمہوری عمل پٹری سے اُتر جائے گا اور بی جے پی کے ساتھ نریندر موودی وہیں پہونچ جائیں گے جہاں 1980ء میں تھے۔ اپوزیشن پارٹیوں کو بھی موجودہ حالات میں تدبیر سے کام لیتے ہوئے سیاسی لبادہ میں فرقہ پرستوں کی مذہبی انتہا پسندی کو ناکام بنانے کی حکمت عملی وضع کرنا چاہئے۔ کانگریس اور دیگر اپوزیشن پارٹیوں نے پارلیمنٹ میں اپنے اثر کو برقرار رکھنے کا مظاہرہ ضرور کیا لیکن فرقہ پرستوں کے ہاتھ پکڑنے کی ہمت بھی دکھانے کی ضرورت ہے۔