ازدواجی تنازعات کے حل کی راہ


اختلاف اس دنیا کا ایک ناگزیر حصہ ہے، کائنات میں پیدا کی گئی ہر نوع دوسری نوع سے مختلف ہے، کتنے ہی ایک پھول ہیں جو رنگ و بو میں دوسرے سے مختلف ہیں۔ اختلاف انسانوں میں بھی ہے ، رنگ و نسل کا اختلاف، خاندان و قبیلہ کا اختلاف، قدوقامت کا اختلاف، شکل و شباہت کا اختلاف، زبان و بیان کا اختلاف، اس اختلاف نے کائنات کو حسین بنایا ہے۔ اس اختلاف کی طرح سوچ و فکر میں بھی اختلاف ہے، جس طرح ایک انسان اپنی جسمانی ساخت میں دوسرے سے مختلف ہے اسی طرح ہر ایک کی فکر الگ ہے، ہر ایک کے سوچنے سمجھنے کا انداز جدا ہے، اس حقیقت کو تسلیم کرلیا جائے تو پھر اختلاف کے باوجود مل جل کر رہنا آسان ہوجاتا ہے، اس حقیقت کو فراموش کردینے کے نتیجہ میں گھربار اختلاف کا شکار ہوجاتے ہیں، سماج کے مختلف طبقات کے درمیان اختلاف بھی اسی وجہ سے آتا ہے، ایک ہی ماں باپ کے ہاں پیدا ہونے والے اور ان کے ہاں پرورش پانے والے بھی جس طرح رنگ و روپ میں مختلف ہوتے ہیں اسی طرح فکر و فہم میں بھی ان کا مختلف ہونا مسلّم ہے۔ میاں بیوی کا رشتہ تو بالکل نیا ہوتا ہے، عام طور پر انکا آپس میں کوئی خاندانی تعلق بھی نہیں ہوتا تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ میاں بیوی کی سوچ و فکر صدفیصد متفق ہوجائے، اس نئے رشتہ کی وجہ اور کئی نئے رشتے قائم ہوتے ہیں، لڑکی کے اپنے ماںباب، بھائیوں بہنوں سے خاندانی رشتہ کی طرح اس نئے رشتہ کی وجہ شوہر کے والدین اور انکے بھائی بہن و دیگر رشتہ دار بھی بیوی کے رشتہ دار بن جاتے ہیں، ٹھیک اسی طرح شوہر کیلئے بیوی کے ان جیسے سارے رشتہ دار رشتہ داری کی ڈور میں بندھ جاتے ہیں۔ ان تنازعات کی بنیاد پر زندگیاں بکھرتی ہیں، رشتے ٹوٹتے ہیں، اور یہ اختلافات جب نفس کے زیراثر آجاتے ہیں تو پھر عدالتیں آباد ہوجاتی ہیں، پولیس تھانوں میں اِن جیسے اختلافات کی بنا جم گھٹا لگ جاتا ہے، ناروا جذبات سے اونچے اٹھ کر ٹھنڈے دل سے غور کیا جائے تو ان مسائل کو آسانی سے حل کرلیا جاسکتا ہے۔

ایسے ہی ایک قضیہ میں ڈوری کیس قائم ہوا اور اس تنازعہ کی بنیاد بالکل چھوٹی موٹی گھریلو بے بنیاد باتیں رہی ہیں، جب مقدمہ چل پڑا تو پیشیاں بدلتے بدلتے اور اس میں طرفین کے بیانات قلمبند ہوتے ہوتے چھ سال کا عرصہ نکل گیا، اس اثناء میں طرفین کے اوقات کا بڑے پیمانے پر ضیاع ہوتا رہا، ذہنی سکون کی بربادی اور گھریلو چین و سکون سے محرومی الگ سے رہی، لیکن کوئی مسئلہ حل نہیں ہوسکا، لڑکی کے ماں باپ اس بات پر مصر تھے کہ لڑکے و لڑکے والوں کو سبق سکھایا جائے،لیکن وہ ان کو کیا سبق سکھاتے خود اس جال میں پھنس گئے، لڑکے والے بھی کچھ اسی طرح کی صورتحال سے دوچار رہے، طرفین کے وکلاء نے اپنے مقدمہ میں جان پیدا کرنے کیلئے جو دستاویزات تیار کیے وہ بالکلیہ جھوٹ کا ایک پلندہ تھے، اس طرح دونوں فریق کئی ایک جھوٹ کے مرتکب ہوتے رہے،ظاہر ہے جھوٹ کی وجہ اللہ کی نصرت کیسے شامل حال ہوسکتی ہے اور زندگی میں برکت کہاں سے آسکتی ہے، حدیث پاک میں وارد ہے:’’جب ایک انسان جھوٹ کا مرتکب ہوتا ہے تو اس کی سڑاہند و بدبو سے رحمت کے فرشتے اس جھوٹ بولنے والے سے ایک سال کی مسافت تک دور ہوجاتے ہیں‘‘۔

اس دوران لڑکی نے اپنے شوہر سے فون پر رابطہ برقرار رکھا، آپسی محبت نے جوش مارا، وہ ایک دوسرے سے ملنے کیلئے تیار ہوگئے، چونکہ نکاح کا رشتہ ایک محبت کا رشتہ ہے اور حدیث پاک کی رو سے نکاح کی وجہ جو محبت قائم ہوتی ہے وہ کسی اور دوسرے رشتہ میں نہیں دیکھی جاسکتی، یہی چیز وجہ بنی ان دونوں کو ایک دوسرے سے قریب کرنے کی، لیکن دونوں کے والدین اس بات کیلئے تیار نہیں تھے بلکہ ہردو یہی جذبہ رکھتے تھے کہ جو بھی فیصلہ ہو وہ عدالت میں ہوگا اسکے بعد ہی ہم کوئی قدم اٹھائینگے، اس دوران لڑکی نے احقر کو فون کیا اور کہا کہ میں اپنے شوہر کے ہاں جانا چاہتی ہوں، والدین اس بات کیلئے رضامند نہیں ہیں، کیا میں ان کی ناراضگی کے باوجود یہ قدم اٹھا سکتی ہوں؟ احقر نے جواب دیا، ائے میری پیاری بیٹی! تم نکاح کے بندھن کی وجہ اپنے شوہر کی بیوی ہو، تمہارا یہ رشتہ نہ صرف جائز بلکہ قابل تقدیس رشتہ ہے، نکاح تک ماں باپ تمہارے کفیل و ذمہ دار رہے ہیں، نکاح کے بعد اللہ کے بنائے ہوئے نظام کی رو سے اب تمہارے شوہر تمہارے کفیل ہیں، ماں باپ اگر ناراض ہوں کوئی بات نہیں تم اپنے شوہر کے ہاں خوشی خوشی جاسکتی ہو، یہاں ماں باپ کی رضامندی سے زیادہ اللہ کی رضامندی مطلوب ہے اور جہاں اپنے خالق کی معصیت ہوتی ہو وہاں مخلوق کی اطاعت کا اعتبار نہیں، اس کے بعد اس لڑکی نے اچھا فیصلہ لیا اور اپنے شوہر کے گھر پہنچ گئی، ماں باپ سخت ناراض رہے یہاں تک کہہ دیا گیا کہ ہمارا اور تمہار اب کوئی رشتہ نہیں رہا، ہم یہ چاہیں گے کہ ہمارے جنازہ پر بھی تمہاری چھاؤں نہ پڑنے پائے، ان ناروا جذبات و احساسات کیساتھ ایک سال کا عرصہ گذر گیا اور ادھر اللہ نے اپنی قدرت سے ان دونوں کی گود ہری کردی، انکے ہاں لڑکی تولد ہوئی، یہ نومولودہ پھر سے دونوں خاندانوں کو جوڑنے کا ذریعہ بن گئی، لڑکی نے پھر احقر کو فون کیا اور خواہش ظاہر کی کہ میں اور میرے شوہر اپنی نومولودہ کیساتھ آپ کے پاس آنا چاہتے ہیں، میں نے بڑی خوشی و مسرت کیساتھ انکو خوش آمدید کہا، وہ مٹھائی کا تحفہ لئے میرے ہاں پہنچے، مجھ سے جو کچھ بن پڑا میں نے نومولودہ کیلئے تحفہ پیش کیا، روحانی مسرت کیساتھ انکو دعائیں دیتے ہوئے احقر نے رخصت کیا۔

اس پس منظر میں امت مسلمہ کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ گھریلو چھوٹے موٹے مسائل کو گھر ہی میں حل کرلیں اور اگر بات نہ بنتی ہو تو پھر خاندان کے بڑے بزرگوں کو جمع کرکے اپنے مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کریں، تب بھی جھگڑا حل نہ ہو تو پھر دردمند، متقی و پرہیزگار علماء ومشائخ سے رجوع کریں۔ گھریلو تنازعات سے گلوخلاصی کی ایک ہی راہ ہے اور وہ ہے اسلام۔