ارون جیٹلی پر الزامات

مرکز کی بی جے پی حکومت اپنے سیاسی مخالفین کو زچ کرنے قانونی رسہ کشی میں الجھا کر اپنا راستہ صاف کرنے کی مشق میں مصروف دکھائی دیتی ہے۔ وزیر فینانس ارون جیٹلی اور چیف منسٹر دہلی اروند کجریوال کے درمیان جاری تنازعہ اور ہتک عزت کے مقدمہ کی پیروی کرنے کے لیے ممتاز وکیل رام جیٹھ ملانی کو ادا کردہ فیس کے مسئلہ پر دہلی حکومت پر تنقیدیں ہورہی ہیں۔ ارون جیٹلی اور کجریوال کیس کی خلیج اتنی گہری ہوچکی ہے کہ اب رام جیٹھ ملانی کو کجریوال کے دفاع میں دوقدم آگے دیکھا گیا۔ حکمراں طبقہ اپنے مخالفین کے خلاف زہریلی منافرت کو روک نہیں پارہا ہے تو ممتاز قانون داں کو یہ کہنا پڑا ہے کہ وہ کجریوال کے لیے مفت میں مقدمہ لڑیں گے بلکہ کجریوال ان کے غریب موکل کی طرح ہیں۔ ہندوستانی سیاستدانوں کی کرپشن کی مسافت طویل ہے۔ کجریوال نے کرپشن کے خلاف مورچہ سنبھالا تو عوام نے انہیں ان کی پالیسیوں کی عوض دہلی کی گدی حوالے کی تھی۔ دارالحکومت دہلی پر عام آدمی پارٹی کی حکومت کو برداشت نہ کرنے والی بی جے پی اور اس کے قائدین اب اپنے خلاف ہر سچائی کو بھی برداشت نہ کرنے کی ضد پر اتر آئے ہیں۔ کجریوال نے وزیر فینانس ارون جیٹلی پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ بحیثیت صدر دہلی اور ڈسٹرکٹ کرکٹ اسوسی ایشن اسکام میں ملوث رہے ہیں۔ یہ واقعہ تقریباً 13 سال پرانا ہے جب ارون جیٹلی دہلی اینڈ دہلی کرکٹ اسوسی ایشن کے صدر تھے۔ کرکٹ باڈی میں ہوئی دھاندلیوں کے لیے جب جیٹلی نشانہ بنائے گئے تو انہوں نے اروند کجریوال اور عام آدمی پارٹی کے دیگر قائدین سے ازالہ حیثیت عرفی کے معاملہ میں 10 کروڑ روپئے کا معاوضہ طلب کیا۔ جیٹلی نے 2015ء میں کجریوال اور عام آدمی پارٹی کے قائدین کے خلاف سیول اور فوجداری ہتک عزت کے کیس درج کئے تھے۔ کجریوال کے خلاف 7 ہتک عزت کے مقدمات ہیں جس کی رقم اندازہ کے مطابق 100 کروڑ تک جاسکتی ہے۔

یہاں مسئلہ یہ اٹھایا گیا کہ چیف منسٹر کی حیثیت سے اروند کجریوال دہلی کے عوام کی جانب سے ادا کردہ ٹیکسوں کو اپنے مقدمات کی پیروی کرنے والے وکیل کی فیس پر خرچ کررہے ہیں۔ اس تنازعہ میں شدت پیدا ہوتے ہی رام جیٹھ ملانی نے اروند کجریوال سے کوئی فیس نہ لینے کا اعلان کیا۔ بی جے پی قائدین کو اپنی رسوائیوں کی فکر ہے۔ کرکٹ اسوسی ایشن میں بدعنوانیوں کی تحقیقات مکمل ہوتی ہیں تو ارون جیٹلی کے تعلق سے سچائی سامنے آئے گی۔ کرپشن میں ملوث سیاستدانوں کی کیفیت ایک سفید چادر پوش کی طرح ہوتی ہے جو اپنے اندر لاکھ سیاہ کاریاں رکھنے کے باوجود سفیدی کی چادر اوڑھ کر پارسا بنتا ہے۔ مرکز کی بی جے پی حکومت نے اب تک خود کو سفیدی کی چادر میں لپیٹ رکھا ہے۔ حکومت کے کسی نہ کسی فرد کی جانب سے کوئی نہ کوئی ایسا بیان سامنے آتا ہے جسے پڑھ کر لگتا ہے کہ ان سے زیادہ ملک سے کوئی مخلص نہیں مگر ارون کجریوال نے جب ان کی بدعنوانیوں کا پٹارہ کھولنا شروع کیا ہے تو ایک طاقت رکھنے کے باوجود خود کو کھسیانی بلی کے روپ میں پیش کررہی ہے۔ کجریوال اور دیگر عام آدمی پارٹی قائدین کے خلاف پٹیالہ ہائوز کورٹ اور دہلی ہائی کورٹ میں داخل کردہ مقدمات کی سماعت اور اس کے نتائج سامنے آنے تک دہلی حکومت اور اس کی قیادت کو مختلف عنوانات سے پریشان کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ یو پی اور دیگر اسمبلی انتخابات میں الکٹرانک ووٹنگ مشینوں سے چھیڑ چھاڑ کرنے کی کجریوال کی شکایت نے حکمران بی جے پی کو اخلاقی دھکہ پہونچایا ہے۔ کجریوال کے الزامات کو نظرانداز نہیں کیا جانا چاہئے کوئی رائے دہندہ ایک پارٹی کو ووٹ دیتا ہے تو اس کا یہ ووٹ جب کسی دوسری پارٹی کے کھاتے میں جمع ہوجائے تو اسے فریب کہا جاتا ہے اس بدعنوانیوں اور فریبی حرکتوں کی کم از کم اخلاقی جانچ ہونی چاہئے۔ دوسری طرف اروند کجریوال کو بھی اپنی حکومت کی کارکردگی پر دھیان دینا ہوگا۔ تاکہ عوام کی توقعات پر پوری اترسکے۔ تشہیری حربے اور تنازعات میں گھرے رہنے کی عادت، ایک عوامی خدمت کا جذبہ رکھنے والے لیڈ کے سیاسی مستقبل کے لیے ٹھیک ثابت نہیں ہوں گے۔ عوام کی دیانتدارانہ خدمت کا دعوی کرنے والے کجریوال نے اب خود کو بھی ان سیاستدانوں کی صف میں کھڑا کرلیا ہے جو کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ اور ہیں۔