اروناچل پردیش میں صدر راج نافذ کرنے کا فیصلہ مرکز کی برسراقتدار پارٹی کی مرضی کے تابع ہوا ہے تو اپوزیشن کے مطابق یہ فیصلہ ’’جمہوریت کا قتل‘‘ ہے۔ اس کے علاوہ جس مسئلہ پر سپریم کورٹ میں مقدمہ بازی چل رہی ہے تو مرکز نے فوری صدر راج نافذ کرنے کی سفارش کی ہو اور صدرجمہوریہ نے بھی جب مرکز کے فیصلہ پر اپنی توثیق کی مہر ثبت کردی۔ صدرجمہوریہ پرنب مکرجی نے اگرچیکہ مرکز کی سفارش پر فوری عمل کرنے سے گریز کرتے ہوئے صدر راج کے نفاذ کے رموز و نکات کا بھی باریکی سے جائزہ لیا ہوگا لیکن ایک ریاست کی اسمبلی میں باغیانہ سرگرمیوں کا ساتھ دیتے ہوئے سیاسی عدم استحکام کی کیفیت پیدا کرنا بھی منصوبہ بند سازش معلوم ہوتی ہے۔ کسی بھی ریاست کی بقاء اور استحکام امن و امان گڈ گورننس، قانون کی عمل داری اور آئین کی بالادستی سے مشروط ہے۔
اگر یہ دونوں نہ ہوں تو مرکز کوئی بھی حکومت آئے اس سے دستوری اتھاریٹی پر کوئی آنچ نہیں آئے گی۔ جب کسی ریاست کی اسمبلی کو معطلی کی حالت میں رکھ کر عوام اور طلبہ کے درمیان اعتماد کی فضاء ختم کی جاتی ہے تو سیاسی اتھل پتھل ہونے لگتی ہے۔ کانگریس دیگر اپوزیشن پارٹیوں نے صدرجمہوریہ اور مرکز کے فیصلہ کو جلدی میں اُٹھایا گیا قدم قرار دیا۔ اس حقیقت کو سیاسی قیادت ہرگز نہیں سمجھ سکتی کہ کسی ریاست میں عدم استحکام اور مسائل اس کے اپنے ہوتے ہیں۔ اس میں مرکز کی جانب سے ایک سطحی مدد کی جاتی ہے۔ آج کے سیاسی ماحول میں اروناچل پردیش کا واقعہ، واقعی دستوری اتھاریٹی اور بحران سے نمٹنے حکومت کی ناکامی اور مطلب کے سیاست دانوں کی جیت سمجھا جائے گا۔ کانگریس کے بعض ارکان اسمبلی کی باغیانہ سرگرمیوں کا اگر کسی دوسری سیاسی طاقت نے استعمال کیا ہے تو اس سیاسی بغاوت کو روکنے کیلئے شرائط و قواعد کا نفاذ بھی لازمی ہے۔ مرکز نے ریاست اروناچل پردیش کے عوام کے ساتھ ناانصافی کی ہے کیوں کہ اروناچل پردیش اسمبلی کو معطلی کی حالت میں رکھنے کا فیصلہ کرنے سے قبل قواعد پر عمل نہیں کیا گیا۔ جب معاملہ کی سماعت عدالت میں ہوتی ہے، اس کا فیصلہ آنے تک انتظار کرنا ہر دونوں فریقوں کے لئے لازمی ہوتا ہے لیکن مرکز کی بی جے پی حکومت نے یوم جمہوریہ کے موقع پر اروناچل پردیش کے عوام کے ساتھ ناانصافی کی اور ان کے خلاف غیرجمہوری قدم اٹھایا۔
کسی بھی اسمبلی کا سیشن طلب کرنے کے لئے 6 ماہ کا فرق نہیں ہونا چاہئے مگر اروناچل پردیش اسمبلی کا سیشن 6 ماہ سے زائد وقت گذرنے کے بعد بھی طلب نہیں کیا گیا۔ بغاوت اور باغیانہ سرگرمیوں کی وجہ سے ریاستی اسمبلی کے اسپیکر نے اسمبلی تحلیل کرنے اور غیردستوری بحران پیدا کرنے کی کیفیت کو فوری دور کرنے پر توجہ دی تھی۔ گورنر اروناچل پردیش نے یہاں مرکز کی کٹھ پتلی کا رول ادا کیا ہے تو اس کا بھی سپریم کورٹ میں نوٹ لیا جائے گا۔ ریاستی گورنر اور اسپیکر اسمبلی نے سیاسی ناراض قائدین نے حکومت کو غیرمستحکم کرنے کیلئے سیاسی ڈرامہ بازی سے کام لیا۔ نظام حکومت اور بے انصافی کے بارے میں جب عوام کے اندر استفسار کرنے کی کیفیت پیدا ہوئی ہے تو پھر مرکز اور ریاستی حکومتوں کو انتخابات کے وقت عوام کے چُبھتے سوالات کا جواب دینے کی نوبت آئے گی۔ کسی بھی ریاستی اسمبلی میں کوئی سیاسی پارٹی طاقتور نہ ہوگی۔ وہ نہ ہی قیادت کی ذمہ داری سنبھال سکتا ہے اور نہ ہی سیاسی تحریک میں جان ڈال سکتی ہے۔ مرکز کی نریندر مودی کابینہ کو اروناچل پردیش میں صدر راج کے نفاذ کے مضمرات پر غور کرنے کا موقع ملتا ہے تو صدر راج کے نفاذ کو برخاست کرکے یہاں جمہوری عمل پر توجہ دینے میں مدد ملے گی۔ گورنر اروناچل پردیش نے 9 ڈسمبر کو اسمبلی سیشن کی طلبی کی پیشگی تاریخ کا فیصلہ کیا تو اس معاملہ کو سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا تھا۔ ریاست میں صدر راج نافذ کرنے کا فیصلہ کرنے سے قبل سپریم کورٹ کے فیصلہ کا انتظار کیا جانا بہتر تھا۔ ریاست کی صورتِ حال پرامن ہے۔ اس کے باوجود مرکز نے کسی بہتری کی طرف قدم اٹھانے کے بجائے دستوری بحران پیدا کرنے یا بحران کو دور نہ کرنے کا حربہ اختیار کیا۔