ارض فلسطین کا بابرکت ہونا اورمسلم امہ کی سطوت وسربلندی کا راز

آیات قرآنی کی روشنی میں

ارض فلسطین کی اہمیت وفضیلت کا اندازہ اس بات سے ہوتاہے کہ اللہ سبحانہ نے قرآن پاک میں متعدد مقامات پراسکے مقدس اوربابرکت ہونے کا ذکرفرمایاہے۔ ’’اے میری قوم اس مقدس زمین میں داخل ہوجاؤجس کو اللہ تعالی نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے،اورپیٹھ پلٹاکرواپس نہ جاؤ ورنہ نقصان میں پڑجاؤگے‘‘(المائدۃ:۲۱)اس آیت پاک میں اللہ سبحانہ نے ارض فلسطین کوارض مقدسہ فرمایاہے،ارض مقدسہ سے بعض مفسرین نے بیت المقدس اوربعضوں نے شہرقدس اورایلیا ،بعضوں نے شہر اریحا کوجونہر اردن اوربیت المقدس کے درمیان قدیم شہر آبادتھا ،تحقیق یہ ہے کہ وہ آج بھی آبادہے ان سب کو مرادلیا ہے۔ بعضوں کے نزدیک اس سے دمشق ، فلسطین،اوربعضوں کے نزدیک اردن مرادہے،کعب احبارکی روایت کے مطابق سارا ارض شام اللہ سبحانہ کی رحمتوں کا خزانہ ہے،اس سرزمین کو مقدس کہنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس کو انبیاء کرام علیہم السلام کا مسکن ہونے کا شرف حاصل ہے۔بعض روایات سے معلوم ہوتاہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام جب لبنان کے پہاڑ پر چڑھے تو اللہ سبحانہ نے ابراہیم علیہ السلام سے فرمایا’’اے ابراہیم یہاں سے نظرڈالوجہاں تک آپ کی نظر پہنچے گی اس کو ارض مقدس بنادیں گے‘‘الغرض ملک شام رحمتوں کی سرزمین ہے۔ ’’ہم نے بنی اسرائیل کو رہنے کے لئے اچھا ٹھکانہ دیا ‘‘ (یونس:۹۳)اس آیت پاک میں ’’مبوا صدق‘‘سے مرادمصروشام کے شہر ہیں جوبیت المقدس کے اطراف واکناف میں واقع ہیں،حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اللہ سبحانہ نے شام اوربیت المقدس میں نبی اسرائیل کورہنے کا بہتروعمدہ ٹھکانہ عطا فرمایا (روح المعانی:۱۱؍۱۸۹)’’پاک ہے وہ اللہ سبحانہ جواپنے بندے کوراتوں رات مسجدحرام سے مسجداقصی تک لے گیا جس کے اطراف ہم نے برکتیں رکھی ہیںتاکہ ہم اسکواپنی قدرت کی بعض نشانیاں دکھائیں ،یقینا اللہ سبحانہ خوب سننے والے اوردیکھنے والے ہیں‘‘(بنی اسرائیل:۱)اس آیت پاک میں آپ ﷺکے سفر’’اسرائ‘‘ کا ذکرہے جومسجدحرام سے مسجداقصی تک حالت بیداری میں وہ بھی کچھ لمحات میں ہوا،مسجداقصی میں تمام انبیاء ومرسلین عظام علیہم السلام کی امامت پھرمسجداقصی سے آسمانوں کی سیر،سدرۃ المنتہی پھربارگاہ قدس تک رسائی کو معراج کہاجاتاہے، اس سارے سفر میں عجائبات قدرت کے عینی مشاہدات کا تذکرہ بنی اسرائیل کی اس آیت اورسورہ نجم کی ابتدائی آیات میں بیان ہوا ہے ’’الذی بارکنا حولہ‘‘فرماکراللہ سبحانہ نے ارض شام کے بابرکت ہونے کا ذکر فرمایاہے،چونکہ یہ سرزمین قدرتی نہروں اوراسکی سرسبزی وشادابی نیزانبیاء کرام علیہم السلام کے مسکن ومدفن ہونے کی وجہ خصوصی امتیازرکھتی ہے اسلئے بھی اسکو بابرکت قراردیا گیاہے۔حدیث پاک میں واردہے’’حق سبحانہ وتعالی نے عرش سے نہرفرات تک پوری سرزمین کوبابرکت بنایا ہے اوراس میں ارض فلسطین کو مزیدتقدس حاصل ہے‘‘وفی الحدیث انہ تعالی بارک فیما بین العرش الی الفرات وخص فلسطین بالتقدیس(روح المعانی:۱۵؍۱۱)حدیث پاک میں وارد ہے ’’سیدنا محمدرسول اللہ نے فرمایا اللہ سبحانہ وتعالی کا ارشاد ہے اے ملک شام توتمام شہروں میں میرا چنندہ اورمنتخب خطہ ارض ہے میں اپنے چنندہ اورمنتخب بندوں کوتیری طرف پہنچاؤنگا ایک اورحدیث پاک میں وارد ہے‘‘ دجال زمین کا چکرلگائے گالیکن اللہ سبحانہ مسجدنبوی ،مسجدحرام ،مسجداقصی اورمسجدطورتک دجال کورسائی نہیں دیں گے۔(حوالہ سابق)’’ہم ابراہیم اورلوط کواس سرزمین کی طرف بچاکرلے گئے

جس کو ہم نے جہاں والوں کیلئے بابرکت بنایاہے‘‘(الانبیائ:۷۱) والمراد بہذا الارض ارض الشام(روح المعانی:۱۷؍۷۰)چونکہ حضرت ابراہیم ولوط علیہما السلام کی ہجرت عراق سے شام کی طرف ہوئی تھی:فارق صلوات اللّٰہ علیہ قومہ ودینہم ،وہاجر الی الشام (طبری:۵؍۲۶۷)اسلئے اس میں جس سر زمین کا ذکرکیا گیا ہے اس سے سرزمین شام مرادہے۔’’ہم نے تیزوتندہواکوسلیمان (علیہ السلام)کے تابع کردیاجوان کے حکم کے مطابق اس زمین کی طرف چلتی تھی جہاں ہم نے برکتیںرکھی تھیں اورہم ہرچیزکے جاننے والے ہیں‘‘(الانبیائ:۸۱)اس آیت پاک میں بھی ’’بارکنا فیہا‘‘سے مرادارض مقدس فلسطین ہے۔’’قسم ہے انجیرکی اورزیتون کی اورطورسینین کی،اوراس امن والے شہر کی‘‘ (التین:۱)واما طورسینین فالجبل الذی کلم اللہ تعالی شانہ موسی علیہ السلام علیہ۔۔۔۔۔وفی البحر انہ لم یختلف فی انہ جبل بالشام۔۔یہ وہی کوہ طورہے جہاں اللہ تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام کو ہمکلامی کا شرف عطا فرمایا تھا’’بلدالامین ‘‘سے ارض شام بھی مراد ہے اورارض مکہ بھی(روح المعانی:۳۰؍۱۷۳)بعض مفسرین کی رائے یہ ہے کہ ’’اس میں دراصل تین مقامات کی قسم ہے،جن میں سے ہر ایک اپنے جگہ مقدس وبابرکت ہے، اورجہاں جلیل القدرصاحب شریعت پیغمبرمبعوث ہوئے، انجیروزیتون کے علاقہ سے مرادبیت المقدس ہے جہاں حضرت عیسی علیہ السلام پیغمبربناکربھیجے گئے، طورسینا وہ جگہ ہے جہاں حضرت موسی علیہ السلام کو نبوت عطاہوئی اورشہر مکہ وہ مبارک شہر ہے جہاں سیدالرسل حضرت محمد رسول اللہ ﷺکی بعثت مبارکہ ہوئی۔(ابن کثیر) ’’ہم نے ان لوگوں کو جو کمزور سمجھے جاتے ہیں اس سرزمین کے مشارق ومغارب کا مالک بنادیا جس میں ہم نے برکت رکھی ہے‘‘ (الاعراف:۱۳۷) یہاں جس سرزمین کے مشارق ومغارب کے مالک بنا نے کا تذکرہ ہے اس سے مراد ارض مقدس فلسطین ہے،’’التی بارکنا فیہا‘‘سے اسکی اہم خصوصیت اسکا بابرکت ہونا بیان فرمایا۔ شام کے اس سارے علاقے میں اللہ سبحانہ نے برکتیں رکھی ہیں،برکتوں سے روحانی ومادی دونوں طرح کی برکتیں مرادہیں، روحانی اعتبارسے بیت المقدس میں نماز کا اداکرنا کئی گنا زائد اجروثواب کا مستوجب ہے۔یہ مقدس سرزمین انبیاء کرام علیہم السلام کی جائے عبادت اورانکا قبلہ رہی ہے، ظاہری اعتبارسے بھی اسکی سرسبزی وشادابی ،اشجاروانہرسے اسکی دلکشی ودلفریبی بڑی خوش منظر ہے۔ اوراسکے ساکنین کیلئے بھی یہاں خوشحالی اورفارغ البالی کا سامان رہا ہے۔(روح المعانی: ۱۵؍۱۱) یہاں ’’کانوا یستضعفون‘‘سے اس قوم کا کمزوراورضعیف ہونا مراد نہیںہے بلکہ اس سے مرادیہ ہے کہ اس قوم کوکمزوروضعیف شمارکرلیا گیا تھا۔اس ارشادباری میں یہ رمزبھی پوشیدہ ہے کہ اللہ سبحانہ جس قوم کی مددونصرت فرمائے وہ بظاہر کمزورسمجھی جاسکتی ہے لیکن حقیقت میں وہ کمزورنہیں بلکہ بڑی طاقتوراورشان وشوکت کی مالک ہوتی ہے۔’’اَوْرَثناَ‘‘کے ارشادپاک سے بھی انکی خداترسی و مقبولیت ظاہرہے،چنانچہ اللہ سبحانہ نے قوم فرعون اورقوم عمالقہ کے ہلاک ہوجانے کے بعد قوم بنی اسرائیل کو اس مقدس سرزمین کا قبضہ عطافرمایا اورانکی حکومت وسلطنت قائم ہوئی،اس دنیا میں اللہ سبحانہ کا حکم اوراسکی حکیمانہ تدابیرہمیشہ کارفرما ہیں،بنی اسرائیل کوجب فرعون کے ظلم وجوراوراسکی غلامی سے اللہ سبحانہ نے نجات دی اورانکو سطوت وسلطنت،اقتداروتمکن بخشاتوپھر ان کو چاہئے تھا کہ اسکے شکرگزاربندے بن کرزندگی گزارتے لیکن انہوں نے نافرمانی ،ناسپاسی وناشکری کو اپنا وطیرہ بنالیاجس کی پاداش میں اللہ سبحانہ نے پھرسے درشت وسنگدل دشمن کوان پرمسلط کردیا ،تباہی وبربادی انکا مقدربن گئی اورشہرمقدس پھرسے ویران ہوگیا اس میںامت مسلمہ کیلئے ایک پیغام ہے کہ اگر اس کو اقتداروتمکن مل جائے توبنی اسرائیل کی سرتابی کا انجام اپنی نگاہوں میں رکھے،اسکے احکامات اوراسکے منشا کوہرگزفراموش نہ کرے،دین وایمان کے تقاضوں کوپوارکرنے میں ہرگزغفلت نہ برتے، اسکی برکت سے ضرورغلامی کی زنجیریں کٹ سکتی ہیں ،شب حیات روشن صبح میں تبدیل ہوسکتی ہے،مسلمانوں کو مایوس نہیں ہونا چاہیئے چونکہ اللہ کی رحمت سے مایوس ہونا کفران نعمت ہے۔اس لئے شارحین نے اس سے یہ نکتہ بھی بیان فرمایا ہے کہ امت مسلمہ آج بھی اس بابرکت سرزمین کے ساتھ تمام کرئہ ارض کی مالک ہوسکتی ہے بشرطیکہ وہ دین حق کی نصرت کا فرض پوراکرکے اللہ سبحانہ کی مددونصرت کا اپنے آپ کومستحق بنائے،چونکہ عزت وذلت کا دینا اللہ سبحانہ کے دست قدرت میں ہے،وہ جسے چاہے معززومکرم بنائے اورجسے چاہے ذلیل ورسوا کرے، وتعز من تشاء وتذل من تشائ(آل عمران:۲۶)
لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ عزت توصرف اللہ سبحانہ کیلئے اوراسکے رسول(ﷺ)اورایمان والوں کیلئے مختص ہے یعنی عزت وغلبہ صرف اورصرف اللہ سبحانہ کیلئے ہے پھروہ جسے چاہے عزت وشوکت اورغلبہ عطافرمادے،چنانچہ وہ حضرات انبیاء کرام ومرسلین عظام علیہم السلام اوران پرایمان لانے والوں کو عزت وسربلندی وسرفرازی بخش دیتے ہیں، ارشادباری ہے’’ہم نے زبورمیں پندونصیحت کے بعد یہ بات لکھ دی ہے کہ زمین کے وارث میرے نیک بندے ہوں گے(الانبیائ:۱۰۶)یہاں ’’ارض ‘‘سے مرادبعضوں نے جنت لی ہے اوربعضوں نے ارض کفارلی ہے یعنی اللہ سبحانہ کے نیک ،صالح اورخداترس بندے ہی زمین کے مالک ہوں گے یعنی حکومت وسلطنت اللہ سبحانہ انہیں کونصیب فرمائیں گے۔ارشادباری سے مزید وضاحت ہوتی ہے کہ ’’ تم ہی سربلنداورغالب رہوگے اگرتم ایمان والے بن جاؤ‘‘ (آل عمران:۱۳۹)الغرض اس زمین پرغلبہ وکامرانی کیلئے ایمان اورایمان کے تقاضوں کو پورا کرنے کی شرط ہے۔