اردو یونیورسٹی پر تسلط کی برقراری کے لیے چند عناصر سرگرم

حیدرآباد۔ 10 جون (سیاست نیوز) مولانا آزاد نیشنل اُردو یونیورسٹی کے نئے وائس چانسلر کے انتخاب کے سلسلے میں مرکزی حکومت کی سطح پر اقدامات جاری ہیں تو دوسری طرف یونیورسٹی پر تسلط قائم رکھنے کیلئے سرگرم عناصر اس بات کی کوشش کررہے ہیں کہ نئے وائس چانسلر کا اُن کی پسند اور مرضی کے مطابق انتخاب کیا جائے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس سلسلے میں مرکزی حکومت اور وزارت فروغ انسانی وسائل میں مختلف گوشوں سے زبردست پیروی کی جارہی ہے۔ سابق وائس چانسلر نے اپنی میعاد کی تکمیل سے قبل جو ایجنڈہ ادھورا رکھا تھا، اس کی تکمیل کے سلسلے میں موجودہ انچارج وائس چانسلر سرگرداں ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ انچارج وائس چانسلر کے تقرر کے سلسلے میں وزارتِ فروغ انسانی وسائل سے جو احکامات جاری کئے گئے، اس میں تیکنیکی کمی کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے موجودہ انچارج اہم پالیسی فیصلے کرنے سے گریز نہیں کررہے ہیں۔ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن اور سنٹرل ایکٹ کے تحت انچارج وائس چانسلر کو اہم پالیسی فیصلوں کا کوئی اختیار نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ ایگزیکٹیو کونسل کا اجلاس طلب کرسکتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ محمد میاں کی میعاد کی تکمیل کے بعد وزارت فروغ انسانی وسائل میں خواجہ ایم شاہد کو وائس چانسلر مقرر کرنے کے احکامات جاری کئے تھے، اسی بنیاد پر یونیورسٹی میں اعلامیہ گشت کرایا گیا جس میں کہا گیا تھا کہ خواجہ ایم شاہد نے وائس چانسلر کے عہدہ کی ذمہ داری سنبھال لی ہے۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ سابق وائس چانسلر سے قربت اور ان کے بااعتماد رفیق سمجھے جانے والے انچارج وائس چانسلر اِن احکامات کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ تاثر دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ وہ انچارج نہیں بلکہ مکمل اختیارات کے ساتھ ’’وائس چانسلر‘‘ ہیں۔ اس طرح وہ اہم پالیسی فیصلوں کے ساتھ سابق وائس چانسلر کے ادھورے مشن کی تکمیل پر ساری توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں۔ ایک طرف ان کے حامی یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ وزارتِ فروغ انسانی وسائل نے خواجہ ایم شاہد کو انچارج وائس چانسلر مقرر نہیں کیا جبکہ یونیورسٹی کی ویب سائیٹ پر ان کے نام کے ساتھ انچارج وائس چانسلر لکھا گیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر خواجہ ایم شاہد مکمل وائس چانسلر ہیں تو احکامات میں اس بات کی وضاحت کیوں کی گئی کہ نئے وائس چانسلر کے تقرر تک برقرار رہیں گے۔ دوسری طرف نئے وائس چانسلر کے تقرر کے لئے سرچ کمیٹی کے ذریعہ سرگرمیاں خود اس بات کا ثبوت ہیں کہ خواجہ ایم شاہد انچارج وائس چانسلر ہیں لیکن ان کے حامی انہیں مکمل وائس چانسلر قرار دیتے ہوئے ان کی کارروائیوں کی تائید کررہے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ انچارج وائس چانسلر نے اُن افراد کے خلاف تادیبی کارروائیوں کو تیز کردیا ہے جس کا آغاز سابق وائس چانسلر نے کیا تھا۔ نئے وائس چانسلر کے اعلان سے قبل انتقامی کارروائیوں کو مکمل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ یونیورسٹی میں ہر سطح پر لوگ خوف اور اندیشوں کا شکار ہیں اور کسی بھی مسئلہ پر رائے زنی سے گریز کیا جارہا ہے۔ سابق وائس چانسلر کے حامیوں کو یقین ہے کہ ان کے کسی قریب شخص یا سفارشی کو نیا وائس چانسلر مقرر کیا جائے گا، لہٰذا شمالی ہند کا غلبہ برقرار رہ سکتا ہے۔ جن افراد نے سابق میں بعض کارروائیوں پر اعتراض جتایا تھا، انہیں یہ کہتے ہوئے ہراساں کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اگر وہ کسی طرح کی سرگرمیوں کو جاری رکھیں گے تو نئے وائس چانسلر کے ذریعہ ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ بتایا جاتا ہے کہ شمالی ہند کی لابی کی مخالفت کرنے والے پروفیسرس اور دیگر افراد کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھی جارہی ہے۔ اطلاعات یہاں تک ہیں کہ یونیورسٹی میں لینڈ لائن فون کالس کی ریکارڈنگ کی جارہی ہے تاکہ سرگرمیوں پر نظر رکھی جاسکے۔ اس طرح یونیورسٹی میں ہر شخص غیریقینی اور عدم تحفظ کی صورتحال کا شکار ہے۔ ایسے عناصر جو فرضی ڈگریوں اور نااہلیت کے باوجود اہم عہدوں پر فائز ہیں، وہ خوفزدہ ہیں کہ اگر کوئی سخت اور اُصول پسند وائس چانسلر مقرر ہوجائے تو ان کی بے قاعدگیاں منظر عام پر آجائیں گی۔ ذرائع نے بتایا کہ یونیورسٹی میں شمالی ہند کے تسلط کی برقراری کیلئے سابق وائس چانسلر کی جانب سے مقرر کردہ میڈیا ایڈوائزر اہم رول ادا کررہے ہیں۔ وہ اپنے مخصوص ٹولہ کے ذریعہ ہر شخص کی سرگرمیوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں، لیکن اُصولاً میڈیا ایڈوائزر کی برقراری صرف ایک سال کیلئے ہے کیونکہ وہ سبکدوشی کی عمر کو پہونچ چکے ہیں۔ یونیورسٹی کے ایک سینئر ترین پروفیسر جن کے ساتھ سابق وائس چانسلر نے ناانصافی کی تھی، موجودہ صورتِ حال پر تبصرہ کرتے ہوئے اتنا کہا کہ یونیورسٹی کے حالات صرف اللہ تعالیٰ ہی سدھار سکتے ہیں ورنہ موجودہ ٹولی بے قاعدگیوں اور بدعنوانیوں کی عادی ہوچکی ہے۔