حیدرآباد، 22؍ مارچ (پریس نوٹ) مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں شعبۂ سماجیات کی جانب سے آج دو روزہ قومی کانفرنس کا افتتاح عمل میں آیا۔ پروفیسر ایم اے کلام، سی کے پرہلاد سنٹر فار ایمرجنگ انڈیا، لویولا انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن(ایل آئی بی اے)، چنئی نے کہا کہ ملک بھر میں بڑے پیمانے پر نا انصافی کی فضا پھیلی ہوئی ہے۔ تعلیم یافتہ طبقہ، طلبہ اور اسکالرس کو اس کے خلاف آواز اٹھانا چاہیے۔ سماجیات یا انتھروپولوجی کے اسکالرس کی تو یہ ایک اہم ذمہ داری ہے کہ اس کے خلاف آواز اٹھائیں۔ انہوں نے مثال دی کہ گذشتہ دنوں تملناڈو میں ایک وائس چانسلر کو تقرر کے لیے 33 لاکھ روپئے رشوت لیتے ہوئے رنگے ہاتھوں گرفتار کیا گیا۔ اس طرح کے واقعات کے خلاف پڑھے لکھے افراد کو ضرور آگے آنا چاہیے۔پروفیسر کلام، ’’بڑھتا ہوا فاشزم، اقلیتیں اور ملک کی پیچیدگیاں‘‘ کے زیر عنوان کلیدی خطبہ پیش کررہے تھے۔ انہوں نے ملک میں بڑھتے ہوئے عدم رواداری کے ماحول کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ اس کے باعث لوگوں کا پولیس سے اعتماد کم ہو رہا ہے جو ایک جمہوری ملک کے لیے نقصان دہ امر ہے۔ یہ صورت حال ملک کے ترقی و خوش حالی کے حق میں نہیں ہے۔مہمانِ خصوصی پروفیسر جیکب جان کوٹاکایم، پروفیسر ایمیریٹس، شعبۂ سماجیات، کیرالا یونیورسٹی، تریوندرم و ڈائرکٹر ، انٹرنیشنل رورل نیٹ ورک (کینیڈا) نے ہمنوا بنانے کے بڑھتے ہوئے خوف کے مسئلہ پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس کے لیے ریاست (ملک) اور غیر ریاست (مارکٹ) ذمہ دار ہے۔ انہوں نے اس تصور کی بھی مخالفت کی کہ ہندوستان انگریزی دورِ حکومت میں اَپَوِتر (ناپاک) ہوگیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان کی خوبصورتی اس کی تنوع، اجتماعیت میں پنہاں ہے۔ پروفیسر رانو جین، ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنس، ممبئی، نے اپنے خطاب میں کہا کہ لسانی اقلیت کی زبانیں کاروبار کے باعث خطرے میں ہے۔ کیونکہ لوگ کاروبار کی خاطر زیادہ چلنے والی زبان کی طرف راغب ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ زبانوں کو مذہب سے جوڑنا بھی ان زبانوں کے لیے نقصاندہ ثابت ہو رہا ہے۔ پروفیسر پی ایچ محمد، صدر شعبۂ سماجیات نے خیر مقدم کیا اور مہمانوں کا تعارف پیش کیا۔ ڈاکٹر سبید نے شکریہ ادا کیا۔