حیدرآباد۔/9مئی، ( سیاست نیوز) مرکزی وزارت فروغ انسانی وسائل نے مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں جاری بے قاعدگیوں اور بدعنوانیوں پر آخر کار توجہ مرکوز کی ہے۔ وزارت کے ذرائع کے مطابق حکومت کو یونیورسٹی میں جاری سرگرمیوں کے بارے میں مسلسل نمائندگی اور میڈیا میں انکشافات کے بعد وزارت نے اس سلسلہ میں آزادانہ تحقیقات کا فیصلہ کیا ہے۔ توقع ہے کہ جلد ہی تحقیقات کے طریقہ کار کا تعین کرلیا جائے گا۔ بتایا جاتا ہے کہ اس سلسلہ میں وزارت فروغ انسانی وسائل کے ایک اعلیٰ عہدیدار پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی جائے گی جو یونیورسٹی کا دورہ کرتے ہوئے حقائق کا پتہ چلائے گی۔ ذرائع نے بتایا کہ مختلف عوامی نمائندوں اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے اخبارات میں کئے گئے انکشافات کے ساتھ وزارت سے نمائندگی کی گئی۔ اگرچہ کہ قومی سطح پر حکومت میں شامل بعض افراد وائس چانسلر اور ان کے حواریوں کو بچانے کی کوشش کررہے ہیں لیکن ان کی کوششیں کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دیتیں۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے علاوہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے تلنگانہ یونٹ نے مرکزی وزیر فروغ انسانی وسائل سمرتی ایرانی سے نمائندگی کی تھی۔ اگرچہ وائس چانسلر کی میعاد 13مئی کو ختم ہوجائے گی لیکن مرکزی حکومت وائس چانسلر کی میعاد سے تحقیقات کو الگ تھلگ رکھنے کے حق میں ہے۔ دوسری طرف تحقیقات سے بچنے کیلئے موجودہ وائس چانسلر اور ان کے حواری ایڑی چوٹی کا زور لگارہے ہیں۔ دہلی میں بعض بی جے پی قائدین اور حکومت سے قربت رکھنے والے افراد کو اعتماد میں لے کر تحقیقات سے روکنے کی کوششیں جاری ہیں۔ موجودہ وائس چانسلر جو میڈیا میں بے قاعدگیوں کے انکشافات سے بوکھلاہٹ کا شکار ہیں اپنے قریبی ٹولہ کے ذریعہ بے قاعدگیوں کو چھپانے کی کوشش کررہے ہیں اور اس کے لئے مختلف شعبہ جات کے ذمہ داروں کو واضح ہدایات دی گئی ہیں کہ وہ کسی بھی معاملہ میں میڈیا سے گفتگو نہ کریں۔ وائس چانسلر کے ’’ وزیر با تدبیر‘‘ جو میڈیا کوآرڈینیٹر کے عہدہ پر فائز ہیں وہ عملاً یونیورسٹی پر کنٹرول کررہے ہیں اور اعلیٰ عہدوں پر فائز افراد کو سنگین کارروائی کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ ملک کی تمام یونیورسٹیز کی تاریخ میں شاید یہ پہلا موقع ہے جب اردو یونیورسٹی نے قواعد کے خلاف میڈیا کوآرڈینیٹر کا تقرر کیا۔ یونیورسٹی کے ذرائع نے اعتراف کیا کہ پبلک ریلیشن آفیسر کی موجودگی میں میڈیا کوآرڈینیٹر کے تقرر کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ کئی برسوں تک مختلف اخبارات اور ٹی وی چینلس پر اپنے اثر و رسوخ کے استعمال کے ذریعہ بے قاعدگیوں کی پردہ پوشی کے عوض میڈیا کوآرڈینیٹر کے عہدہ پر تقرر کیا گیا۔ اس تقرر کے سلسلہ میں جو اعلامیہ جاری کیا گیا وہ انتہائی مضحکہ خیز تھا۔اعلامیہ کی اجرائی کے دن ہی درخواستیں داخل کرنے اور انٹرویو دینے کی تاریخ مقرر تھی جبکہ عام طور پر کسی بھی تقرر کیلئے کچھ دن کا وقفہ دیا جاتا ہے۔ مذکورہ افراد جو وائس چانسلر کے راز دار اور بااعتماد سمجھے جاتے ہیں ان سے ساری یونیورسٹی کے ملازمین خوفزدہ ہیں۔ خاص طور پر حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے افراد پر خصوصی نظر رکھی جارہی ہے۔ حالیہ عرصہ میں یونیورسٹی نے ایسے دو افراد کو نشانہ بنایا جنہوں نے بے قاعدگیوں کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔ ان افراد کے خلاف الزامات عائد کرتے ہوئے تحقیقات کا اعلان کیا گیا لیکن تحقیقات بالکلیہ یکطرفہ رہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ میڈیا کوآرڈینیٹر نے ایک ٹی وی چینل اور ایک اخبار سے تعلق رکھنے والے افراد کے حوالہ سے رپورٹ پیش کرتے ہوئے الزامات کو درست ثابت کرنے کی کوشش کی جبکہ مذکورہ صحافیوں نے تحقیقاتی کمیٹی کے روبرو بیان دینے سے صاف طور پر انکار کردیا تھا اس کے باوجود ان کے نام استعمال کرتے ہوئے الزامات کو درست قرار دینے کی کوشش کی گئی۔ وائس چانسلر کے ایک قریبی ذرائع نے نام شائع نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ جن دو افراد کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا گیا وہ دوسروں کو خوفزدہ کرنے کی ایک کوشش ہے تاکہ مستقبل میں کوئی بھی شخض میڈیا سے گفتگو نہ کرے۔ حال ہی میں بزنس مینجمنٹ شعبہ سے تعلق رکھنے والے ایک طالب علم نے قومی کوئزمقابلہ میں انعام حاصل کیا تھا جب میڈیا کے ایک گوشہ نے اس نوجوان کا انٹرویو لینے کی کوشش کی تو ڈپارٹمنٹ کے ڈین نے یہ کہتے ہوئے روک دیا کہ اسے وائس چانسلر کی برہمی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ اس طرح اردو یونیورسٹی وائس چانسلر اور ان کے حواریوں کیلئے ایک خود مختار مملکت کی شکل اختیار کرچکی ہے جہاں کسی بھی طرح کی من مانی کی گنجائش ہے۔ بعض افراد کو کارروائی سے دھمکا کر گواہ معافی یافتہ بنادیا گیا اور ان کی نااہلیت کی پردہ پوشی کی گئی اور ان کے بیانات ریکارڈ کرتے ہوئے دوسروں کے خلاف کارروائی کی راہ ہموار کی گئی جبکہ گواہ معافی یافتہ بننے والے افراد کا تقرر خود قواعد کے خلاف ہے اور وہ اہلیت کے بغیر عہدوں پر برقرار ہیں۔ یونیورسٹی کے ایک پروفیسر نے یہاں تک ریمارک کیا کہ ’’ اردو یونیورسٹی کو آپ ہندوستان کا حصہ نہ سمجھیں بلکہ یہ ایک ایسی مملکت پر قائم ہے جہاں ڈکٹیٹر اور اس کے مصاحبین برسر اقتدار ہیں۔‘‘