اردو یونیورسٹی میں تقررات میں بے قاعدگیوں کی جانچ کیلئے 2کمیٹیاں

تحقیقات کو روکنے بعض عناصر سرگرم، محمد میاں نے100سے زائد کنٹراکٹ تقررات کئے،خواجہ شاہد کا اعتراف
حیدرآباد۔/6اگسٹ، ( سیاست نیوز) مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں تقررات کے سلسلہ میں قواعد کی خلاف ورزی اور مبینہ اقرباء پروری سے متعلق روز نامہ ’’سیاست‘‘ کے انکشافات پر آخر کار مرکزی حکومت نے یونیورسٹی کے قیام سے لے کر آج تک کئے گئے تمام زمروں کے تقررات کی جانچ کا فیصلہ کیا ہے۔ باوثوق ذرائع نے بتایا کہ وزارت فروغ انسانی وسائل کی ہدایت پر یونیورسٹی میں دو کمیٹیاں تشکیل دی گئیں جو ٹیچنگ اور نان ٹیچنگ اسٹاف کے تقررات کی مکمل جانچ کریں گی۔ دونوں کمیٹیوں میں بعض سابق آئی اے ایس عہدیداروں اور یونیورسٹی سے غیر متعلقہ افراد کو شامل کیا گیا ہے تاکہ تحقیقات میں مکمل شفافیت رہے۔ سابق وائس چانسلر محمد میاں کے دور میں اس طرح کے تقررات کی شکایات ملی تھیں جس پر مرکزی حکومت نے یونیورسٹی کے قیام سے لے کر آج تک کہ تمام تقررات کے طریقہ کار اور قواعد کی پابندی سے متعلق اُمور کی جانچ کا فیصلہ کیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مرکز کی ہدایت پر اگرچہ دو علحدہ کمیٹیاں تشکیل دی گئیں لیکن یونیورسٹی حکام نے اس فیصلہ کو انتہائی راز میں رکھا اور یونیورسٹی کام کے آغاز کیلئے درکار سہولتیں فراہم نہیں کی گئیں جس کے سبب گزشتہ دو ماہ سے یہ کمیٹیاں اپنے کام کا آغاز کرنے سے قاصر ہیں۔ دونوں کمیٹیوں کا قیام اگرچہ سابق وائس چانسلر کی مجبوری تھی جنہوں نے مرکز کی ہدایت کے مطابق سبکدوشی سے عین قبل یہ کمیٹیاں تشکیل دیں لیکن ان کی سبکدوشی کے باوجود ان کمیٹیوں کو غیر کارکرد رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ گزشتہ 5برسوں کی بے قاعدگیوں پر پردہ پڑا رہے۔کمیٹیوں کی تشکیل کے بعد ان افراد میں کھلبلی مچ گئی جن کے تقررات قواعد کے مطابق نہیں ہیں وہ کسی نہ کسی طرح ان کمیٹیوں کو کام کرنے سے روکنے کی کوشش کررہے ہیں۔ کمیٹی کے کام کے آغاز سے قبل بعض ماہرین کے ذریعہ جن کا تعلق دہلی کی ایک یونیورسٹی سے بتایا جاتا ہے مختلف فائیلوں میں پائی جانی والی خامیوں کو دور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ دہلی سے تعلق رکھنے والے یہ ماہرین یونیورسٹی میں ہی قیام پذیر ہیں۔ وہ سابق وائس چانسلر کے غلط فیصلوں کی اصلاح کی کوشش کررہے ہیں۔ اس کام کی تکمیل تک مذکورہ جانچ کمیٹیوں کو معلق رکھا جائے گا۔ یونیورسٹی کے انچارج وائس چانسلر خواجہ محمد شاہد نے ’سیاست‘ سے بات چیت میں اس بات کا اعتراف کیا کہ یونیورسٹی کے قیام سے لے کر ابھی تک کہ ہر سطح پر کئے گئے تقررات کی جانچ کا فیصلہ کیا گیا ہے تاہم انہوں نے کمیٹیوں کے کام کے آغاز میں تاخیر کے بارے میں کچھ بھی کہنے سے گریز کیا۔ یونیورسٹی میں گزشتہ چند برسوں کے دوران ہوئی مبینہ بے قاعدگیوں کے بارے میں پوچھے جانے پر انچارج وائس چانسلر نے کہا کہ وہ صرف اپنے گزشتہ دو ماہ کے دور پر تبصرہ کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ دو ماہ کے دوران انہوں نے ایک بھی غلط فائیل پر دستخط نہیں کئے ہیں تاہم انہوں نے سابقہ وائس چانسلر کے دور میں ہوئی مبینہ بے قاعدگیوں پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا۔ انہوں نے کہا کہ میں صرف اپنے دور کی بات کہہ سکتا ہے۔ انچارج وائس چانسلر نے سابق میں 100سے زائد ٹیچنگ پوسٹس پر عارضی تقررات کی تصدیق کی۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے مختلف حصوں میں موجود یونیورسٹی کے مختلف مراکز پر ضرورت کے مطابق یہ تقررات کئے گئے اور اس کے لئے یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کی منظوری ضروری نہیں ہے۔ واضح رہے کہ سابق وائس چانسلر نے 100سے زائد ٹیچنگ عہدوں پر اپنے دور میں ماہانہ 25ہزار روپئے کی تنخواہ پر عارضی تقررات کئے تھے۔ اس بات کی شکایت کی گئی تھی کہ کئی مقامات پر کسی انٹرویو کے بغیر اپنے پسندیدہ امیدواروں کا تقرر کیا گیا۔ انچارج وائس چانسلر نے بالواسطہ طور پر اس کا اعتراف کیا تاہم ان کا کہنا تھا کہ بعض مراکز پر ہوسکتا ہے کہ مقامی ذمہ داروں نے اپنی ضرورت کے مطابق انٹرویو کے بغیر ہی تقررات کئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ کنٹراکٹ اور عارضی بنیاد پر تقررات کیلئے یو جی سی سے منظوری کی ضرورت نہیں ہے تاہم انٹرویو کے بغیر تقررات کے سلسلہ میں انہوں نے مزید کچھ بھی کہنے سے گریز کیا۔ انہوں نے کہا کہ ان تقررات کا وائس چانسلر کو مکمل اختیار حاصل ہوتا ہے جس کا سابق وائس چانسلر نے استعمال کیا۔ انچارج وائس چانسلر نے ’سیاست‘ میں شائع شدہ اس رپورٹ کی بھی تصدیق کی جس میں انکشاف کیا گیا تھا کہ یونیورسٹی کے سنٹر فار انفارمیشن ٹکنالوجی کو سابق وائس چانسلر کے نام سے موسوم کرنے کیلئے ایکزیکیٹو کونسل میں بعض ارکان نے تجویز پیش کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ اختلاف رائے کے سبب اس پر قطعی فیصلہ نہیں ہوسکا۔ اردو کی ترقی و ترویج کے مقصد سے قائم کی گئی ملک کی پہلی قومی اردو یونیورسٹی کی زبوں حالی اہل اردو پر عیاں ہے۔ یونیورسٹی اپنے قیام کے مقاصد میں ابھی تک ناکام ہے جس کا اعتراف خود مرکزی حکومت کے ذمہ داروں نے کیا ہے۔ یونیورسٹی کے زوال کے اگرچہ کئی عوامل ذمہ دار ہیں لیکن افسوس اس بات پر ہے کہ یونیورسٹی کے اعلیٰ ترین عہدہ پر فائز افراد خود بھی اردو سے ناواقف ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب ذمہ دار افراد ہی اردو سے ناواقف ہوں تو پھر کس طرح یونیورسٹی کی ترقی اور زبان کے فروغ کی توقع کی جاسکتی ہے۔ نئی دہلی کے سیاسی حلقوں میں اثر و رسوخ کے ذریعہ عہدے حاصل کرنے والے افراد پر مشتمل شمالی ہند کا منظم گروہ اردو یونیورسٹی پر عملاً قابض ہے اور انہیں بعض مقامی مفاد پرست عناصر کی تائید حاصل ہے جو اہلیت نہ ہونے کے باوجود عہدوں پر برقرار ہیں اور ملازمت کو بچانے کیلئے اپنے آقاؤں کی پاپوش برداری کررہے ہیں۔ انچارج وائس چانسلر نے حال ہی میں ’سیاست‘ کو ایک تفصیلی مکتوب روانہ کیا جس میں اردو زبان و ادب کی فاش غلطیاں دیکھی گئیں۔ اگرچہ وائس چانسلر کا دعویٰ ہے کہ یہ تحریر ان کی ہے لیکن یونیورسٹی کے ذرائع نے بتایا کہ بعض افراد کی لکھی گئی تحریر پر انچارج وائس چانسلر نے صرف دستخط کئے۔ تحریر لکھنے والوں کی قابلیت کا اندازہ کیلئے صرف ایک غلطی کا اظہار کافی ہے۔ مکتوب میں ایک مقام پر لفظِ ’ عمداً ‘ کا استعمال کیا گیا لیکن اس کا اِملا ’ امداً ‘ لکھا گیا۔