حیدرآباد ۔ 7 ۔ جنوری : ( سیاست نیوز ) : ریاستی حکومت کی جانب سے اردو کے ساتھ متعصبانہ رویہ اختیار کیا جانا کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ حکومت نے ریاست کے بیشتر اضلاع میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا موقف تو دیا ہے لیکن اس زبان کی ترویج و اشاعت کے معاملہ میں ریاستی حکومت کی کوتاہیوں کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے اس کے باوجود اس مسئلہ پر کوئی توجہ دینے میں دلچسپی نہیں دکھا رہا ہے جو کہ اردو زبان کی بدنصیبی ہی کہی جاسکتی ہے ۔ حکومت آندھرا پردیش کی جانب سے ہر سال ایک ڈائری اور کیلنڈر شائع کیا جاتا ہے اور ریاست کے سرکاری عہدیداروں کے علاوہ ارکان پارلیمان ، اسمبلی و قانون ساز کونسل کے ساتھ ساتھ شہر کی اہم شخصیتوں میں یہ ڈائریاں تقسیم کی جاتی ہیں اس کے علاوہ اس ڈائری کو ملک پیٹ میں فروخت کے لیے بھی رکھا جاتا ہے تاکہ ڈائری میں موجود اطلاعات سے دلچسپی رکھنے والے افراد اسے خریدیں اور استفادہ کریں لیکن سال گذشتہ اردو کی ڈائری شائع نہیں کی گئی اور صرف اردو زبان میں کیلنڈر کی اشاعت پر اکتفا کیا جارہا ۔ نمائندگیوں کے باوجود اردو میں ڈائری کی عدم اشاعت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ خود حکومت اردو کے فروغ میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کررہی ہے ۔
علاوہ ازیں دکانوں پر سائن بورڈ پر تلگو زبان کے لزوم کو یقینی بنانے کے احکامات جاری کئے گئے لیکن اردو سے متعلق کوئی صراحت نہیں کی گئی جو کہ اس بات کو مزید تقویت بخشتا ہے کہ حکومت سرکاری سطح پر ہی اردو کو نظر انداز کرنے لگی ہے ۔ محکمہ پرنٹنگ پریس کے ذرائع کے بموجب حکومت آندھرا پردیش کی مہر کے ساتھ تیار کردہ انگریزی و تلگو زبان کی ڈائری پوری طرح سے تیار ہوچکی ہے اور بہت جلد فروخت کے لیے پیش کئے جانے کی توقع ہے لیکن اردو ڈائری کا مکمل مواد تیار ہونے کے باوجود اس کی اشاعت تعطل کا شکار بنی ہوئی ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ شعبہ اردو کی جانب سے محکمہ کو معلوماتی مواد اردو میں فراہم کروایا جاچکا ہے لیکن بعض متعصب عہدیدار جو کہ اردو کو ایک مخصوص طبقہ کی زبان تصور کرتے ہیں وہ اس ڈائری کی اشاعت میں رخنہ ڈال رہے ہیں ۔ حکومت کی جانب سے شائع کی جانے والی ڈائری میں نہ صرف عوامی نمائندوں کے فون نمبرات وغیرہ ہوتے ہیں بلکہ اس ڈائری میں تمام محکمہ جات کے اعلی عہدیداروں سے رابطہ کی تفصیلات موجود ہوتی ہیں ۔
انگریزی و تلگو زبان میں ڈائری کی اشاعت کے ساتھ اردو زبان میں ڈائری شائع کردی جائے تو ایسی صورت میں محکمہ کو کوئی پریشانی نہیں ہوتی لیکن اردو ڈائری کی عدم اشاعت کے ذریعہ اردو زبان کو عوام تک رسائی بالخصوص اس طبقہ تک رسائی سے روکنے کی کوشش ہے جو طبقہ سرکاری امور میں دلچسپی رکھتا ہے ۔ لسانی تعصب کے اس طرح کے واقعات سے نہ صرف حکومت کی نیک نیتی پر شبہ ہوتا ہے بلکہ بسا اوقات ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت اردو زبان کو ہی ختم کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے ۔ حکومت آندھرا پردیش کی جانب سے جو ڈائری شائع ہوتی ہے اس کی اشاعت محکمہ چھاپہ و اشاعت کی جانب سے عمل میں آتی ہے اور اس سال بھی محکمہ کے شعبہ اردو سے تعلق رکھنے والے ملازمین نے اردو زبان میں مواد تیار کر رکھا ہے لیکن یہ مواد ابھی اشاعت کے مرحلہ میں داخل نہیں ہوا ۔ بتایا جاتا ہے کہ اس تاخیر کے لیے بھی منظم سازش تیار ہوتی ہے تاکہ ڈائری کی اشاعت کو روکا جاسکے ۔
سال گذشتہ بھی ملازمین نے مکمل مواد تیار کیا تھا لیکن اس مواد کی تصحیح اور منظوری کے حصول کے نام پر ڈائری کی اشاعت میں ایک ماہ کی تاخیر کردی گئی بعد ازاں اعلیٰ عہدیداروں نے کہا کہ نیا سال شروع ہوچکا ہے اور اب اگر اشاعت کے مرحلہ کا آغاز ہوتا ہے تو ایسی صورت میں تقسیم تک تین ماہ گزر جائیں گے یہ کہتے ہوئے سال گذشتہ اردو زبان میں ڈائری کی اشاعت روکتے ہوئے صرف کیلنڈر شائع کردئیے گئے اور اس سال بھی کچھ اسی طرح کی کوششیں کی جارہی ہیں کہ پہلے مسئلہ کو تعطل کا شکار بنایا جائے اور پھر بعد ازاں یہ کہہ دیا جائے کہ ڈائری کی اشاعت میں بہت تاخیر ہوچکی ہے اس لیے اس پراجکٹ کو فی الحال روک دیا جائے ۔ حکومت کے علاوہ ریاستی لسانی کمیشن اور اقلیتی کمیشن کو چاہئے کہ وہ اس سلسلہ میں خصوصی نوٹ لیتے ہوئے اردو ڈائری کی اشاعت کے احکام جاری کریں تاکہ برسہا برس سے جاری اردو ڈائری کی اشاعت جو سال گزشتہ نہیں ہوپائی اسے بحال کیا جاسکے ۔۔