حیدرآباد۔19جنوری ( سیاست نیوز) عابد علی خان ایجوکیشنل ٹرسٹ کے زیراہتمام اردو دانی ‘ زبان دانی اور انشاء کے امتحانات میں تقریباً 11ہزار امیدواروں نے حصہ لیا ۔ دونوں شہروں حیدرآباد وسکندرآباد میں 136 مراکز پر امتحانات کا انعقاد عمل میں آیا ‘ آندھراپردیش کے مختلف اضلاع میں 79 مراکز میں امتحانات منعقد ہوئے ۔ ملک کے دیگر ریاستوں میں 9مراکز قائم کئے گئے جہاں پر ان امتحانات میں امیدواروں نے حصہ لیا ۔ عابد علی خان ایجوکیشنل ٹرسٹ کے زیراہتمام منعقد ہونے والے ان امتحانات کے مراکز کا مختلف ادبی و علمی شخصیتوں نے معائنہ کرتے ہوئے امیدواروں کی حوصلہ افزائی کی اور عابد علی خان ایجوکیشنل ٹرسٹ کی اردو کے لئے کی جانے والی اس خدمت کو اردو کی ترقی میں اہم پیشرفت قرار دیا ۔ جناب عامر علی خان نیوزایڈیٹر’’سیاست‘‘ نے امتحانی مراکز کا معائنہ کرتے ہوئے امیدواروں میں موجود دلچسپی کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہاکہ اردو سے نوجوان نسل میں دلچسپی اردو کی بقاء کی ضامن ہے لیکن اردو زبان کو اُس کے جائزمقام کیلئے اپنی کوششیں کرنی پڑرہی ہے جس کی بنیادی وجہ اردو سے بے اعتنائی ثابت ہورہی ہے ۔ جناب عامر خان نے بتایا کہ عابد علی خان ایجوکیشنل ٹرسٹ کی جانب سے امتحانات کا انعقاد اردو کے مستقبل کو تابناک بنانے اور اس شیریں زبان سے دلچسپی پیدا کرنے کیلئے عمل میں لایا جاتاہے تاکہ آئندہ نسلیں اردو کی شیرینی سے محروم نہ ہونے پائے ۔ انہوں نے بتایا کہ اعلیٰ تعلیم میں کئی ایسے کورسیس موجود ہیں جن میں اردو کا بھی لزوم عائد ہے ۔
جناب عامر علی خان نے بی یو ایم ایس کی مثال پیش کرتے ہوئے کہاکہ بی یو ایم ایس میں داخلے کیلئے امیدوار کو اردو سیکھنا لازمی ہے ۔ اسی طرح بعض دیگر کورسیس میں داخلے کیلئے بھی اردو کا لزوم موجود ہے ۔ پروفیسر فیروز احمد نے مختلف مراکز کے معائنہ کے بعد ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ عابد علی خان ایجوکیشنل ٹرسٹ کی یہ مہم ایک تحریک کی شکل اختیار کرچکی ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ مکہ مسجد کے مرکز پر ان کی ملاقات ایک ایسی خاتون سے ہوئی جو انگریزی میڈیم سے تعلق رکھتی ہے اور اب اپنی چار لڑکیوں کے ساتھ اردو سیکھنے میں پہل کررہی ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ ان امتحانات کو مزید بہتر انداز میں منعقد کرتے ہوئے طلبہ کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیئے ۔ پروفیسر عطیہ سلطانہ صدر شعبہ اردو عثمانیہ یونیورسٹی نے کہا کہ اردو کے فروغ کیلئے جو خدمت انجام دی جارہی ہے وہ قابل ستائش ہے اور اردو کے فروغ کیلئے بنیادی سطح پر جو کام ہونا چاہیئے وہ عابد علی خان ایجوکیشنل ٹرسٹ کے زیراہتمام انجام دیاجارہاہے ۔ ڈاکٹر اطہر سلطانہ صدر شعبہ اردو تلنگانہ یونیورسٹی نے بھی مختلف مراکز کے معائنہ کے بعد کہا کہ اردو نہ صرف ایک زبان ہے بلکہ ایک تہذیب اور اتحادی روش کی علامت ہے ۔ اس زبان نے ہندوستانی کی آزادی میں کلیدی کردار ادا کیا ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ آج بھی اردو زبان فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی علامت تصور کی جاتی ہے ۔ محترمہ وجئے لکشمی جو کہ وظیفہ یاب ہیں نے محبوب حسین جگر ہال میں منعقدہ امتحانی مرکز پر امتحان تحریر کیا اور بتایا کہ اردو زبان سے دلچسپی کے باعث وہ اردو سیکھ رہی ہے ۔ ڈاکٹر ناظم علی پرنسپال مورتاڑ کالج نظام آباد نے بتایا کہ کثیر تعداد میں بچوں اور بڑوں کا ان امتحانات میں شرکت کرنا اردو کے درخشاں کے و تابناک مستقبل کی علامت ہے ۔ ڈاکٹرمحمد محبوب لکچرر گورنمنٹ ڈگری کالج نے کہا کہ ادارہ ’سیاست‘ کی جانب سے اردو کے فروغ میں جو اقدامات کئے جارہے ہیں وہ آئندہ نسلوں میں اردو کو اُس کا جائز مقام دلانے میں معاون ثابت ہوں گے ۔
ڈاکٹر اختر سلطانہ صدر شعبہ اردو ونیتا مہا ودیالیہ نے امتحانی مراکز پر خدمات انجام دینے والوں کو قابل مبارکباد قرار دیتے ہوئے کہا کہ اردو کی جو بے لوث خدمات کی جارہی ہے اُس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اردو آسانی سے ختم ہونے والی نہیں ہے بلکہ اس زبان کا بہتر مستقبل ہے ۔ ڈاکٹر موسیٰ اقبال اسسٹنٹ پروفیسر تلنگانہ یونیورسٹی نے کہا کہ اردو کی شیرینی سے سب ہم آہنگ ہورہے ہیں اور صرف ایک شعر کے ذریعہ مراکز کے معائنہ کے بعد ردعمل ظاہر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ
اردو ہے جس کا نام ہمیںجانتے ہیں داغؔ
سارے جہاں دھوم ہمارے زباں کی ہے
محترمہ عائشہ جبین ‘ محترمہ نجمہ سلطانہ ‘ محترمہ سارا سلطانہ ‘ جناب محمد میر ریسرچ اسکالرس مولانا آزاد یونیورسٹی نے بھی امتحانی مراکز کا معائنہ کرتے ہوئے کہا کہ اردو زبان دانی‘ زبان دانی اور انشاء کے ذریعہ بنیادی طور پر بھی طلبہ جس انداز سے اردو میں مہارت حاصل کررہے ہیں اس سے نہ صرف وہ مستقبل میں روانی کے ساتھ اردو پڑھ پائیں گے بلکہ اردو لکھنے کی صلاحیت میں بھی اضافہ ہوگا ۔ ان ریسرچ اسکالرس نے ایڈیٹر روزنامہ ’’سیاست‘‘ جناب زاہد علی خان کی کاوشوں کو قابل تحسین قرار دیتے ہوئے کہا کہ امتحانات میں طلبہ کی دلچسپیوں میں اضافہ کیلئے انہیں پُرکشش انعامات کی پیشکش کی جانی چاہیئے ۔ ان لوگوں نے بتایا کہ بعض مراکز پر ماں اور بیٹی کو ایک ساتھ امتحان لکھتے دیکھ کر بے انتہا خوشی ہوئی ۔