اردو ایک آفاقی زبان ، محبت کی مٹھاس سے عوام کو ایک دوسرے سے جوڑنے کی صلاحیت

ہندوستان سے لے کر جاپان تک اردو کا بول بالا ، ٹوکیو یونیورسٹی شعبہ اردو کے اسکالرس کی جناب زاہد علی خاں سے ملاقات
حیدرآباد۔/5ستمبر، ( سیاست نیوز) کون کہتا ہے کہ اردو کا مستقبل تابناک نہیں؟ اردو ایک آفاقی زبان ہے اور محبت کی مٹھاس سے پُر یہ زبان عوام کو ایک دوسرے سے جوڑنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اردو زبان کسی مذہب اور علاقہ تک محدود نہیں بلکہ یہ کسی بھی سرحد یا حدود سے بالاتر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان سے لیکر جاپان تک اردو کا بول بالا ہے۔ ٹوکیو یونیورسٹی آف فارن اسٹڈیز کے ڈپارٹمنٹ آف اردو سے وابستہ پروفیسرس نے ان خیالات کا اظہار کیا۔ ڈپارٹمنٹ آف اردو کے سربراہ ہیروشی ہاگیتا اسسٹنٹ پروفیسر اور مامیا کوماکی کن ساکو ان دنوں ہندوستان کے دورے پر ہیں۔ انہوں نے آج دفتر ’سیاست‘ پہنچ کر جناب زاہد علی خاں اور جناب عامر علی خاں سے ملاقات کی اور جاپان میں اردو زبان کی ترقی اور فروغ کیلئے یونیورسٹی آف فارن اسٹڈیز کی خدمات سے واقف کرایا۔ اردو کے یہ جاپانی اسکالرس ممتاز مزاح نگار جناب مجتبیٰ حسین کے ہمراہ حیدرآباد کے مختلف ادبی تنظیموں کا دورہ اور ادبی شخصیتوں سے ملاقاتیں کررہے ہیں۔ ان کے دورہ ہندوستان کا مقصد یہاں کی مختلف یونیورسٹیز سے باہمی تعاون کو یقینی بنانا اور اردو ادب کے مختلف زمروں میں ریسرچ میں تعاون کیلئے دونوں ممالک کے اساتذہ اور طلبہ کے باہمی تبادلے کے امکانات تلاش کرنا ہے۔ ٹوکیو یونیورسٹی آف فارن لینگویجس سے وابستہ یہ شخصیتیں نئی دہلی کے بعد حیدرآباد کو پہنچی ہیں ان کا کہنا ہے کہ اردو زبان جاپان میں بھی اسی قدر مقبول اور پسندیدہ ہے جس طرح ہندوستان اور پاکستان میں ہے۔ اردو کی خوبی یہ ہے کہ جاپانی عوام بھی اردو سے واقف ہونے کے بعد اسے اپنائے بغیر نہیں رہ سکتے۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کی یونیورسٹیز کے درمیان باہمی تبادلے اور تعاون کے امکانات تلاش کرنے کیلئے وہ مختلف یونیورسٹیز کے ذمہ داروں سے ملاقات کررہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ٹوکیو یونیورسٹی کے شعبہ اردو کا ہندوستانی یونیورسٹیز سے اٹوٹ رشتہ رہے تاکہ وہاں زیر تعلیم طلبہ کو ریسرچ میں مدد ملے۔ دونوں ممالک کے درمیان بہتر تعلقات کو وقت کی اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے ہیروشی ہاگیتا اور مامیا کوماکی نے کہا کہ عوام سے عوام کے درمیان بہتر روابط کے ذریعہ دونوں ممالک مختلف شعبوں میں ایک دوسرے سے قریب آسکتے ہیں۔ ان کا ایقان ہے کہ دونوں ممالک کو قریب لانے میں اردو زبان اہم رول ادا کرسکتی ہے۔ ہیروشی ہاگیتا نے بتایا کہ ٹوکیو یونیورسٹی میں شعبہ اردو کے بانی پروفیسر گامو تھے جنہوں نے ڈپارٹمنٹ آف اردو کی توسیع میں اہم رول ادا کیا۔ ہیروشی ہاگیتا 80کے دہے سے بحیثیت طالب علم شعبہ اردو سے وابستہ ہیں اور آج وہ ترقی کرتے ہوئے اسی شعبہ کے سربراہ کے عہدہ پر فائز ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے دورہ ہندوستان کا مقصد مختلف یونیورسٹیز سے باہمی تعاون کے سلسلہ میں یادداشت مفاہمت پر دستخط کرنا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ڈپارٹمنٹ آف اردو میں تقریباً 60طلبہ ہیں اور آنے والے دنوں میں اس تعداد میں اضافہ ہوسکتا ہے۔چار سالہ بی اے کورس میں ہر سال تقریباً 15طلبہ داخلہ لے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ یونیورسٹی میں ہندی کا شعبہ بھی موجود ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہندوستان اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے کئی افراد ٹوکیو میں مقیم ہیں اور یونیورسٹی کی جانب سے ہر سال نومبر میں اردو فیسٹول کا اہتمام کیا جاتا ہے جس کے تحت اردو ڈرامے اور مشاعرے پیش کئے جاتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ جاپانی عوام ہندوستان کی تہذیب و ثقافت اور ہندوستانی کھانوں کے مداح ہیں اور دونوں ممالک کے باہمی رشتوں کو مزید مستحکم کیا جاسکتا ہے۔ ہیروشی ہاگیتا نے بتایا کہ یونیورسٹی کے شعبہ اردو کو حکومت جاپان کی سرپرستی حاصل ہے۔ ٹوکیو سے 600کیلو میٹر دور اوکاسا میں موجود یونیورسٹی میں بھی شعبہ اردو قائم ہے جہاں پروفیسر سویاما اس شعبہ کے سربراہ ہیں۔ ٹوکیو یونیورسٹی کے اردو شعبہ میں جاپانی اساتذہ کے علاوہ پاکستان کے سہیل عباس خاں بھی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ہیروشی ہاگیتا کو ابتداء ہی سے اردو فکشن میں دلچسپی رہی ہے اور وہ سعادت حسین منٹو کی تحریروں سے کافی متاثر ہیں۔ انہوں نے شوکت صدیقی اور انتظار حسین کے افسانوں کا جاپانی زبان میں ترجمہ کیا۔ اس کے علاوہ وہ دیگر ادیبوں کی تصانیف پر ریسرچ کررہے ہیں۔ ہیروشی ہاگیتا کا گھر ازخود اردو زبان کا گہوارہ ہے کیونکہ ان کی شریک حیات مسز شاشورے بھی اردو کی گریجویٹ ہیں اور انہوں نے مختلف اردو کتابوں کا جاپانی زبان میں ترجمہ کیا جن میں جناب مجتبیٰ حسین کی مشہور تصنیف ’’ جاپان چلو ‘‘ شامل ہے۔ احمد ندیم قاسمی، قرۃ العین حیدر، شوکت صدیقی، کرشن چندر، انتظار حسین، خدیجہ مستور، راجندر سنگھ بیدی اور عصمت چغتائی جیسے نامور ادیبوں کی تصانیف کے ترجمے اور ان پر ریسرچ کا کام جاری ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جاپانی عوام ایک مرتبہ اردو افسانوں کا مطالعہ کرنے کے بعد اس کا مستقل مطالعہ کرنے پر راغب ہوتے ہیں۔ مامیا کوماکی نے بتایا کہ جاپان میں ہندوستان اور پاکستان کے تقریباً 30ہزار افراد موجود ہیں۔ اس کے علاوہ 100سے زائد جاپانی ایسے ہیں جو اردو زبان پر عبور حاصل کرچکے ہیں۔ ہندوستانی فلمیں اور کھانے جاپان میں کافی مقبول ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ انفارمیشن ٹکنالوجی کے شعبہ میں جاپان ہندوستانی ماہرین کی صلاحیتوں کا معترف ہے اور حالیہ عرصہ میں آئی ٹی شعبہ میں ہندوستانی پروفیشنلس کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کے حالیہ دورہ جاپان کا حوالہ دیتے ہوئے جاپانی اردو اسکالرس نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ مختلف شعبوں میں دونوں ممالک کے رشتے بہتر ہوں گے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ثقافت اور سیاحت کے شعبوں میں دونوں ممالک کے عوام کو قریب آنے کا موقع دیا جائے۔ حیدرآبادی تہذیب اور حیدرآبادی ڈشیس نے بھی جاپانی اردو اسکالرس کو اپنا گرویدہ بنالیا ہے۔ مامیا کوماکی کی شریک حیات جو خود بھی اردوکی اسکالر ہیں، انہوں نے کہا کہ حیدرآبادی ڈشیس میں شامی، کباب، بریانی اور دیگر شاہی پکوان انہیں کافی پسند ہیں۔ ٹوکیو میں کئی ہندوستانی اور پاکستانی ہوٹلیں ہیں جہاں حیدرآبادی کھانوں کا علحدہ نظم ہے۔ اردو اسکالرس نے بتایاکہ جاپانی عوام کی نظر میں ہندوستان ایک مقدس سرزمین ہے کیونکہ بدھ مت کے بانی ہندوستان میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ چاہتے ہیں کہ دونوں ممالک کی نئی نسل کو ایک دوسرے کی تہذیب اور روایات سے واقف کرایا جائے۔ انہوں نے حیدرآبادی تہذیب خاص طور پر مہمان نوازی اور خلوص و محبت کے جذبے کو خراج تحسین پیش کیا۔ جناب زاہد علی خاں نے انہیں حیدرآباد کی تاریخ پر مشتمل مطبوعات حوالے کیں۔ جاپانی اردو اسکالرس نے روز نامہ ’سیاست‘ کی جاپان میں مقبولیت اور ویب سائٹ پر ملاحظہ کرنے والوں کی تعداد کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ انہوں نے روز نامہ ’سیاست‘ کی جانب سے غریبوں کی معاشی اور تعلیمی ترقی کے اقدامات پر بھی خوشنودی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ یہ جان کر خوش ہیں کہ دیگر اخبارات کے برخلاف روز نامہ ’ سیاست‘ نہ صرف مکمل اخبار ہے بلکہ سماج کی خدمت کا کام انجام دے رہا ہے۔