’ اردو اپنے بل بوتے پر زندہ ، شیریں زبان کا عظیم ماضی اور روشن مستقبل‘

نئی نسل کو مادری زبان کے تاریخی ورثہ سے باخبر رکھنے کی ضرورت ، اردو ایکسپو سے ایڈیٹر ’سیاست‘ جناب زاہد علی خاں و دیگر کاخطاب

اردو ایکسپو … جھلکیاں
احاطہ سیاست کے محبوب حسین جگر ہال کو نہایت خوبصورتی کے ساتھ سجایا گیا ۔
اردو کے شعراء غالبؔ ، اقبال ؔ ، میرؔ ، امیر احمد خسروؔ ، قلی قطب شاہ کو تمثیلی ملبوسات میں پیش کیا گیا ۔
ہر شاعر ؍ ادیب اپنے مخصوص لباس میں ہو بہ ہو تشریف فرما تھا تو اس کے بارے میں ایک طالبہ تفصیلات بتارہی تھی ۔
سنٹرل پبلک ہائی اسکول کے طلبہ ، اساتذہ کی شبانہ روز محنت سے اس کا اہتمام ہوا
اردو کے یونیورسٹیز کے پروفیسرس ، ذی اثر حضرات نے اس کا مشاہدہ کیا ۔

حیدرآباد ۔ 23 نومبر ۔ ( سیاست نیوز) اردو زبان ایک زندہ زبان ہے اس کا ماضی جس طرح تابناک رہا اسی طرح مستقبل بھی روشن ہوگا ۔ نئی نسل کو اردو زبان سے واقف کروانااور اپنی مادری زبان کی تاریخ کو پیش کرتے ہوئے اس کی یاد تازہ کرنا اردو زبان کی ترقی و بقاء کا ضامن ہوگا ۔ ان خیالات کا اظہار جناب زاہد علی خان ایڈیٹر سیاست نے یہاں ’’اردو بلارہی ہے ‘‘کہ تحت ’اردو ایکسپو ‘کا محبوب حسین جگر ہال میں افتتاح کرتے ہوئے کیا اور کہاکہ اسکولی طلبہ شیریں زبان اردو کی تاریخ اور تمثیلی ملبوسات اور ان شعراء کے متعلق جس انداز سے بیان کیا وہ قابل صد ستائش ہے ۔ اردو زبان اپنے دم خم پر زندہ رہنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اردو زبان پر اپنی نوعیت کی اس منفرد اور انوکھی نمائش ’’اردو ہے جس کا نام ‘‘ کا اہتمام سنٹرل پبلک ہائی اسکول خلوت نے ادارہ سیاست کے باہمی اشتراک سے کیا اور اردو ایکسپو کی اس افتتاحی تقریب کے مہمانان خصوصی پروفیسر ایس اے شکور ڈائرکٹر ؍ سکریٹری اردو اکیڈیمی تلنگانہ نے کہا کہ اردو میں اپنی نوعیت کی یہ پہلی نمائش ہے جس کو مثالی قراردیا۔انہوں نے کہا کہ اسے مزید توسیع دیتے ہوئے مختلف مقامات پر منعقد کرنا چاہئے تاکہ نئی نسل اردو زبان سے واقف ہوسکے اور مادری زبان اردو سے محبت کا تقاضہ ہے کہ اپنے ماضی کو جو شاندار ہے نئی نسل کے سامنے پیش کیا جائے ۔ڈاکٹر مظفر ، ڈاکٹر مفظر علی شہ میری صدر شعبہ اردو حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی نے کہاکہ اردو کے متعلق جو مایوسی کا اظہار کیا جاتا تھا اس قسم کے منفرد اور مخصوص پروگرامس کے انعقاد کے ذریعہ اس کا خاتمہ ہوگا اور اردو زبان کے متعلق نئی اُمید پیدا ہوگی ۔ اس زبان کے الفاظ جو ہندی اور دوسری زبانوں میں استعمال ہوتے ہیں اردو کے ماہرین سے غیراردو داں پوچھتے ہیں۔ ڈاکٹر معید جاوید صدر شعبہ اردو عثمانیہ یونیورسٹی نے کہاکہ اردو زبان میں یوں تو کئی پروگرامس ہوتے ہیں ، مشاعرے ، سمینارس ہوتے ہیں لیکن اس طرز کا پروگرام پہلی بار ہوا ۔ انھوں نے انتظامیہ سنٹرل پبلک اسکول اس کے سکریٹری ظفراﷲ فہیم اور حمیدہ بیگم کو مبارکباد دی۔    اس موقع پر تمام مہمانان کو سنٹرل پبلک ہائی اسکول کی جانب سے مومنٹوز جناب زاہد علی خان ایڈیٹر سیاست کے ہاتھوں عطا کئے گئے ۔ اس ایکسپو میں 56 اسکولی طلبہ ، طالبات نے حصہ لیا ۔ مرزا غالب ؔ، اقبالؔ ، میرؔ، امیر احمد خسروؔ ، قلی قطب شاہ ، امجدؔ حیدرابادی ، مولانا ابوالکلام آزاد ، مخدومؔ محی الدین اور دیگر شعراء کے روپ میں طلبہ خوبصورت انداز میں پیش ہوئے ۔ اس اردو ایکسپو کو دیکھنے کے بعد ہی اندازہ ہوگا کہ کس طرح اردو کو پیش کیا گیا ۔ اردو کے ماہرین نے اپنے تاثرات کتاب الرائے میں قلمبند کرتے ہوئے اظہار کیا کہ ایسی نمائش اردو زبان میں آج تک نہیں ہوئی ، جس کی مثال نہیں ۔ جناب ظفراﷲ فہیم ڈائرکٹر سنٹرل پبلک ہائی اسکول نے خیرمقدم کیا اور ان کے معاونین میں حمیدہ بیگم ، مسز فریدہ اور اسکول اسٹاف کے دیرینہ شب و روز کی کاوشیں شامل رہیں۔ ادارہ سیاست کے جناب ایم اے حمید پروگرام کوآرڈنیٹر نے اس کے کامیاب انصرام میں مکمل تعاون کیا ۔ یہ نمائش دو دن ہے اور آج بھی جاری رہے گی ۔ ہائی ٹیک پرائیویٹ اسکولس فیڈریشن کے عہدیداران کے علاوہ تلنگانہ فورم فار ایجوکیشن کے عہدیداران اختر شریف اور محمد احمد نے شرکت کرتے ہوئے جناب فہیم اور ان کے اسٹاف کو مبارکباد دی ۔ اس نمائش کے انعقاد کا مقصد اردو کی تاریخ بیان کرتے ہوئے اردو داں طبقہ کو اس کے روشن مستقبل کیلئے تیار کرنا ہے ۔ جن قابل ذکر شخصیات نے اس منفرد نمائش اردو کا مشاہدہ کرتے ہوئے اپنے تاثرات پیش کئے ان میں ڈاکٹر حافظ صابر پاشاہ قادری ، صدر شعبہ عربی محکمہ تعلیمات نے اس مشاہدہ کو گورنمنٹ ہائی اسکول اردو میڈیم کے طلبہ کو ضرور آنا چاہئے ۔ڈاکٹر ایس اے افضل الدین نے کہا کہ اس کامشاہدہ کرنے کے بعد ہی اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح نئی نسل کو اردو مادری زبان سے متعلق واقف کروانے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے ۔ مسز خلیل الرحمن ، ڈاکٹر شیخ سیادت علی ، ڈاکٹر ارشاد احمد مرکز برائے اردو مانو اور جناب سکندر معشوقی صدر ذاکر حسین میموریل سوسائٹی ، محمد علی رفعت ، بدر بن عبداﷲ ، ڈاکٹر تقی الدین ، ڈاکٹر سید غوث الدین ، احمد صدیقی مکیش ، عقیل احمد، ایم اے سلام صحیفہ نگاروں ، سیاست کے ارکان عملہ ، اردو داں طبقہ، اردو اسکولس کے ذمہ داران ، پرنس درشہوار ہائی اسکول کے اساتدہ اور طلبہ نے شرکت کرکے مشاہدہ کیا ۔