اردو افسانے کی ترویج میں مختلف تحریکات و رجحانات کا اہم کردار

مانو میں افسانے کے بدلتے رجحانات پر پروفیسر بیگ احساس کا لکچر

حیدرآباد ۔ 23 ۔ مئی : ( پریس نوٹ ) : مولانا آزاد نیشنل اُردویونیورسٹی کے شعبۂ اُردو میں یو جی سی کی ممدودہ اسکیم کے تحت منعقد ہورہے لکچر سیریز کے دسویں اور آخری لکچر میں اُردو کے ممتاز فکشن نگار، ناقداور استاذ پروفیسربیگ احساس نے’’ اُردو افسانے کے بدلتے رجحانات ‘‘کے موضوع پر سلسلے واربڑی معلوماتی اور تجزیاتی گفتگو کی ۔ انھو ں نے کہا کہ اردو افسانے کی ترویج میں مختلف تحریکات و رجحانات نے اہم کردار نبھایا ہے ۔ دونوں کا تعلق سماج سے ہے۔سر سیدتحریک اور ترقی پسند تحریک ہی اردو ادب میں دو تحریکیں ہیں، جبکہ رومانیت ‘جدیدیت اور مابعد جدیدیت رجحانات ہیں۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ اردو کا پہلا افسانہ ’’ نصیر اور خدیجہ‘‘ ہے ،جو راشدالخیری کا تخلیق کردہ ہے۔پریم چند‘سلطان حیدر جوش‘نیاز فتحپوری ‘سجاد حیدر یلدرم وغیرہ ابتدائی دور کے افسانہ نگارر ہے ہیں اور ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ موصوف نے رومانیت کے حوالے سے کہا کہ اس کا دائرہ محض عشق و محبت کے واقعات تک محدود نہیں ہے، بلکہ اس میں بڑی وسعت ہے۔اس میں الگ سے ایک دنیا تخلیق کی جاتی ہے ۔وہ دنیا جو ہم نے دیکھی بھی نہیں ہے۔رسالہ’’ادب لطیف‘‘ میں ایسے ادیبوں کی نمائندگی ہوتی تھی۔انہوں نے کہا کہ ترقی پسندی کی آمد کا اعلان’’انگارے‘‘ سے ہوا ۔ یہ بیسویں صدی کی ایک کا میاب تحریک ہے اور بین الا قوامی شہرت رکھتی ہے ۔

اس تحریک سے وابستگی تخلیق کاروں کے لیے فخر کی بات تھی۔پریم چند کے افسانوں میں بدلتا ہوا ہندوستان نظر آتا ہے ۔ان کے افسانوں کے مطالعے سے گائوں‘کھیت کھلیان ‘ کسانوں ، مزدوروں وغیرہ کی زندگیوں سے بخوبی واقفیت حاصل ہوتی ہے ۔پریم چند کے علاوہ منٹو ‘ بیدی‘ کرشن چندر‘ عصمت‘ اوپندر ناتھ اشک سبھی اس تحریک کے حصے رہے ہیں ۔ ان سب نے خوب لکھا اور اچھا لکھا۔ انھوں نے مزید کہا کہ رشید جہاں ،عصمت چغتا ئی ، قرۃ العین حیدر وغیرہ کے افسانوں میں تانیثیت کی بہترین مثالیں ملتی ہیں۔ انہوں نے اس وقت کے عالمی منظر نامے پر روشنی ڈالی اور فاشزم کی تعریف بیان کرتے ہوئے ہٹلر کے نظریے کی وضاحت کی، نیز اردو افسانے پر ان نظریات کے مرتب اثرات کو اُجاگر کیا ۔ پروفیسر بیگ احساس نے جدیدیت اور مابعد جدیدت پر بھی روشنی ڈالی، جس کے تناظر میںعہد حاضر کے اردو افسانے کی موجودہ صورتحال پر گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے اپنے لکچر کو ختم کیا۔بعد ازاں سوال و جواب کا دلچسپ سلسلہ شروع ہوا ۔ اس موقعے پر صدر، شعبۂ اُردو ڈاکٹر ابوالکلام اور شعبے کے دیگر اساتذہ کرام پروفیسر فیروز احمد ‘ ڈاکٹر نسیم الدین فریس‘ ڈاکٹر مسرت جہاں،ڈاکٹر شمس الہد یٰ دریابادی اور ڈاکٹر بی بی رضا خاتون کے علاوہ ریسرچ اسکالروں اور طالب علموں کی کثیر تعداد موجود تھی۔