ڈاکٹر سید بشیر احمد
اردو نہ صرف برصغیر کی رابطہ کی زبان ہے بلکہ اب تو یہ مختلف بیرونی ممالک میں بھی بولی اور سنی جاتی ہے ۔اردو کاوجود ہندوستان میں ہوا اور یہ اپنی ارتقائی منزلیں طئے کرتے ہوئے بولی سے ادبی اور علمی زبان بن گئی۔
خواجہ الطاف حسین حالیؔ نے شعری اصناف کے تعلق سے کہا کہ قصیدہ میں مبالغہ آرائی کی وجہ سے غیر فطری انداز میں صنف کا وسیلہ ہے ۔ انہوں نے اس پر اکتفا نہیں کیا بلکہ غزل کے روایتی موضوعات کی بھی مخالفت کی ۔ ان کا کہنا تھا کہ صرف دو مصرعوں میں عشق و محبت کی باتوں کے بجائے مبسوط فلسفہ زندگی کو بھی کامیابی سے پیش کیا جانا چاہئے ۔
کارل مارکس نے کمیوزم کی تحریک کی بنیاد ڈالی تو اس نے واضح کیا کہ دنیا میں دو طبقہ ہیں ۔ ایک سرمایہ دار اور دوسرا مزدور ۔ اس کے نظریہ کے مطابق سرمایہ دار ظالم اور مزدور مظلوم قرار پائے ۔ اس کا کہنا تھا سرمایہ کی غلط تقسیم کی وجہ سے سماج دو طبقوں میں بٹ گیا ہے ۔ چنانچہ اس نے دولت کی مساویانہ تقسیم اور انسانوں میں مساوات پھیلانے پر زور دیا جس کا اثر اردو ادب پر بھی ہوا ۔ لندن میں چند ہندوستانی جن میں سجاد ظہیر ،ملک راج آنند ، محمد دین تاثیر اور جیوتی گھوش نے انجمن ترقی پسند مصنفین کی بنیاد ڈالی ۔ پریم چند ، سردار جعفری اورآنند نارائن ملا وغیرہ نے بھی انجمن کی سرپرستی کی ۔ انہوں نے قلم کاروں کو خاموش تماشائی بنے رہنے کی مخالفت کی بلکہ انہیں عملی جدوجہد میں حصہ لینے کو ناگزیر قرار دیا ۔ ایک عرصہ تک ترقی پسند تحریک کا بول بالا رہا ۔ ترقی پسند تحریک کی وجہ سے اردو ادب کی ساری اصناف میں غیر معمولی اضافہ ہوا لیکن شدت پسندی کے نقصانات بھی واضح ہوئے ۔ اس دورمیں ادب میں نعرہ بازی اہمیت حاصل کرنے لگی ۔ جس کی وجہ سے بہت سارے قلم کاروں نے اس تحریک سے دوری اختیار کی ۔ قلم پر سرخ پہرے لگادئے گئے تھے ۔ شعری و نشری اظہار خارجی موضوعات کا پابند ہوگیا ۔ قلم کار گھٹن کی کیفیت محسوس کر رہے تھے ۔ بالاآخر بیسویں صدی کے نصف آخرکے بعد اس تحریک کی شدت میں کمی آئی ۔ قلم کار آزادی کی فضاء میں سانس لے رہے تھے اور پھر جدیدیت کا دور شروع ہوا ۔ جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے دور سے آج کا ادب گذر رہا ہے ۔ اردو صحافت کی ابتداء اور ارتقاء جدوجہد آزادی کے دور کی دین ہے ۔ اردو صحافت میں مولوی محمد باقر ، مولانا حسرت موہانی ، ابوالکلام آزاد اور محمد علی جوہر کے نام اہم ہیں ۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے ’’ الہلال ‘‘ اور ’’ البلاغ ‘‘ اخبارات نکالے اور محمد علی جوہر ’’ کامریڈ ‘‘ کے مدیر اعلی تھے ۔ ان اخبارات نے تحریک آزادی میں نمایاں رول ادا کیا ۔ ان اخبارات کو حکومت انگلیشیہ نے پنپنے نہیں دیا ۔ مولوی محمد باقر کو جام شہادت نوش کرنا پڑا ۔آزادی کے بعد صحافت بے باکانہ طریقہ سے ملک کی خدمت کر رہی ہے اور عوام کے سیاسی شعور کو بیدار کرنے کا حق ادا کر رہی ہے ۔
اردو کا پہلا اخبار ’’ جام جہاں نما ‘‘ تھا ۔ اخبار عربی لفظ ہے اور اس میں خبریں ہوا کرتی ہیں ۔ خبروں کیلئے انگلش میں مروجہ لفظ News ہے ۔ N سے North، E سے East، W سے West اور S سے South اس طرح دنیا بھر کی خبریں جس جریدہ میں شائع ہوتی ہیں ان کو NEWS کہتے ہیں ۔اخبار یا رسالہ میں اداریہ کی بڑی اہمیت ہوتی ہے ۔ اخبار کے اداریہ سے اس کے معیار کا پتہ چلتا ہے ۔ جس طرح صنف غزل اور افسانہ میں رعایت لفظی کو ملحوظ رکھا جاتا ہے ۔ اسی طرح اخبار میں بھی اس بات کو ملحوظ رکھا جاتا ہے ۔ کیا نہیں لکھا جانا چاہئے اور کیا لکھنا ضروری ہے ۔اسی اہمیت کو پیش نظر رکھا جاتا ہے ۔ آزادی سے پہلے اردو صحافت نے جدوجہد آزادی میں ناقابل فراموش کردار ادا کیا ہے ۔ جامعہ عثمانیہ کے قابل ڈاکٹرس ، انجینئیرس اور قانون داں نے اردو میں زیور تعلیم سے آراستہ ہوکر دنیا بھر میں اپنا نام روشن کیا ۔ بدقسمتی سے آزادی کے بعد اردو زبان سے بے اعتنائی برتی گئی اور اس کو وہ مقام نہیں دیا گیا جس کی وہ مستحق تھی بلکہ اس کی ترقی کی راہوں کو بھی مسدود کردیا گیا اور ہندی کو سرکاری زبان کا درجہ عطا کیا گیا ۔ہندی کی تنگ دامنی کا یہ عالم ہے کہ آزادی کے 64 سال گذرجانے کے باوجود بھی ہندی جیسی قومی زبان ملک کو قومی ترانہ دینے سے قاصر ہے جبکہ ماقبل آزادی علامہ اقبال کا قوی ترانہ ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘ سارے ملک کو گرویدہ بنانے کا سبب ہوا ۔
اخبار کی پالیسی جانبدارانہ نہیں ہونی چاہئے ۔ اخبار کی خبریں اور مضامین وغیرہ میں زبان و بیان ، املا کی غلطیوں پر حتی الامکان قابو پایا جانا چاہئے ۔ ایک بار ایک بارات حادثہ کا شکار ہوگئی اور اس حادثہ میں دلہا دلہن بھی فوت ہوگئے ۔ سب ایڈیٹر نے سرخی بنائی کہ ’’ ایک خوفناک حادثہ میں بارتی معہ دولہا دلہن فوت ہوگئے ‘‘ ۔ اخبار کے مدیر اعلی نے سب ایڈیٹر سے کہا کہ اس سرخی میں ساری خبر کی اطلاع موجود ہے تو پھر خبر کو کون پڑھے گا ۔ اس کے بعد انہوں نے سرخی اپنے ہاتھ سے لکھ کر سب ایڈیٹر کو دی جو یوں تھی ’’ جہاں بجتی ہے شہنائی وہاں ماتم بھی ہوتے ہیں ‘‘ ۔ اگر واقعتاً اتنی دلچسپی سے کام کیا جائے تو یقیناً اخبار کا معیار بلند سے بلند تر ہوگا ۔ حیدرآباد سے سابق میں شائع ہونے والے اخبارات حسب ذیل ہیں ۔ میزان ، رہبر دکن ، اقدام ،مشیر دکن ،ملا پ اور اتحاد جو نمایاں حیثیت کے حامل تھے ۔ آزادی کے ہندوستان سے بعض اہم رسائل بھی شائع ہوا کرتے تھے جیسے بیسویں صدی ، شمع ، منادی ، بانو کھلونا ، ابن صفی کے ناولوں پر مشتمل جاسوسی ناول وغیرہ ۔
مشیر دکن زیر ادارت جناب نرسنگ راؤ صاحب نکالا جاتا تھا ۔ سقوط حیدرآباد کے بعد جناب نرسنگ راؤ ، بی رام کشن راؤ کی وزارت میں وزیر داخلہ کی حیثیت سے فرائض انجام دئے ۔ حیدرآباد ہی نہیں بلکہ ملک کے بے شمار علاقوں سے اردو اخبارات کی اشاعت کا سلسلہ جاری ہے ۔ اس طرح دور حاضر میں اردو ادب آج کل کی صحافت کے توسط سے فروغ پارہا ہے ۔